“AN AMAZING VIEW INTO THE INCREDIBLE SOURCE OF KNOWLEDGE”
امام علیؑ سرچشمہء تمام علوم و فضائل
مسلمان علماء کے مطابق، امام علیؑ بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔[284] اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔[285] اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ علم کلام، فقہ، تفسیر[286] و قرائت، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت[287] جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔[288] ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیرؑ ہیں اور محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے تمام معتزلہ ان کے شاگرد ہیں اور اشاعرہ، امامیہ و زیدیہ کا معاملہ بھی ہے۔[289] فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔[290] قرائت میں بھی ان کے شاگرد ابو عبد الرحمن سلمی کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔[291] اور انہیں علم نحو کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد ابو الاسود دوئلی نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔[292]
:سلسلہء صوفیان
تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنینؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ شیخ احمد غزالی (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو صحابہ و آنحضرت ؐ تک پہچا دیں۔[293] دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم ؐ سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔[294] ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔[295]
:امامت و ولایتِ امام علیؑ
دانش نامہ امام علی میں سید کاظم نژاد طباطبائی کے بقول، امام علی کی ولایت پر تصریح اور نص اس قدر زیادہ اور روشن ہے کہ اس میں کسی تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اس سلسلہ میں اقوال پیغمبر کی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آنحضرت ؐ کی سب سے بڑی فکر اپنے بعد امامت و رہبری کا مسئلہ تھا۔[296] اس سلسلہ میں آپ کے اقدامات کی ابتداء دعوت ذوالعشیرہ سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے امام کو اپنے بعد[297] اپنے جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری سفر حج سے واپسی میں 18 ذی الحجہ میں غدیر خم کے مقام پر[298] اور اسی طرح سے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جب آپ نے قلم و کاغذ طلب کیا تا کہ وہ وصیت لکھ دیں اور ان کے بعد مسلمان گمراہ نہ ہوں،[299] تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔
دلائل امامت حضرت علیؑ کبھی صراحت کے ساتھ آنحضرت کے بعد آپ کی امامت و ولایت کی حکایت کرتے ہیں اور کبھی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کے بغیر آپ کے فضائل کو آشکار کرتے ہیں۔ نوع اول کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
آیہ ولایت: مفسرین اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام علی کے انگوٹھی دینے کے واقعہ کو ذکر کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے رکوع کی حالت میں اہنی انگوٹھی ایک سائل کو بخش دی۔[300] آیہ تبلیغ و آیہ اکمال جو واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت نے لوگوں کے لئے حدیث غدیر بیان کی۔ حدیث غدیر؛ امامت امیر المومنین کے مہم ترین دلائل میں سے ہے۔ واقعہ غدیر پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری سال میں پیش آیا اور لوگوں نے امام علی کو ان کے خلیفہ بنائے جانے پر مبارک باد پیش کی۔
بعض آیات و روایات جنہیں امام علی کی امامت و ولایت کے لئے دلیل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صراحت کے ساتھ آپ کی امامت کی طرف نہیں کیا گیا ہے اور آپ کے فضائل میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ، آیہ صادقین، آیہ خیر البریہ، آیہ اہل ذکر، آیہ شراء، آیہ نجوا، آیہ صالح المؤمنین، حدیث ثقلین، حدیث مدینۃ العلم، حدیث رایت، حدیث کسا، حدیث وصایت، حدیث یوم الدار، حدیث طیر، حدیث مؤاخاة۔[301] حدیث منزلت، حدیث ولایت، حدیث سفینہ، حدیث سد الابواب۔
All Sciences and Virtues
Imam Ali’s Unparalleled Legacy
According to Muslim scholars, Imam Ali is the epitome of knowledge and virtue. Renowned Sunni scholar Ibn Abi al-Hadid acknowledges that Imam Ali is the foundation of all virtues, a fact embraced by various sects and groups despite differences. In the words of Ibn Abi al-Hadid, Imam Ali is the source of detailed explanations in theology, jurisprudence, interpretation of the Quran, recitation, Arabic literature, rhetoric, and other sciences. He attributes the origins of theological discussions to Imam Ali, highlighting his influence on various sects, including Mu’tazila, Ash’ariyya, Imamiyya, and Zaydiyya. Notably, scholars such as Ahmad ibn Hanbal, Malik ibn Anas, al-Shafi’i, and Abu Hanifa are considered his students in jurisprudence. Similarly, in the field of recitation, Imam Ali’s student Abu Abd al-Rahman Salami is recognized as the transmitter of the Quranic recitation chain up to Imam Ali. Furthermore, Imam Ali is credited with the formulation of rules in the science of syntax (Arabic grammar), as his student Abu al-Aswad Duali transmitted these rules to others.
Sufi Lineages:
Most Islamic Sufi orders trace their spiritual lineage back to Imam Ali. Nasrullah Pour Jawadi writes in the Encyclopedia of the Islamic World that figures like Sheikh Ahmad Ghazali (d. 520 H) were instrumental in the emergence of Sufi orders, and many Sufi lineages acknowledge their connection to him. The challenge for Sufi lineage founders lies in establishing a robust genealogy that traces back to the Prophet and his companions, often extending through Imam Ali.
Imamate and Wilayah of Imam Ali:
In the Encyclopedia of Imam Ali, according to Sayyid Kazem Najad Tabatabai, Imam Ali’s leadership and authority are explicitly and vividly established. The abundance of unequivocal evidence leaves no room for doubt, with Prophet Muhammad emphasizing Imam Ali’s central role in the concept of leadership and guidance after him.
The initiation of this series dates back to the event of Ghadir Khumm, where Imam Ali was introduced as the immediate successor and leader after the Prophet. Even in the final moments of his life, during his last pilgrimage, Imam Ali emphasized his role as the successor and warned against straying from the path of Islam after him. The evidences for Imamate sometimes provide explicit details after the Prophet’s demise, while at other times, they subtly hint at Imam Ali’s virtues without explicitly stating his leadership.
Firstly, the verse of Wilayah (leadership) is mentioned by commentators in the context of Imam Ali offering his ring in the state of prostration to a beggar. Secondly, the verses of Tabligh and Tamam (completion) are revealed concerning the event of Ghadir Khumm. Following this event, Imam Ali conveyed the message of Ghadir to the people. The event of Ghadir Khumm stands out as one of the most critical and emphasized proofs of Imam Ali’s leadership. It occurred during the Prophet’s last year of life and resulted in the felicitation of Imam Ali as the rightful leader by the people.
Some verses and traditions that are considered evidence of Imam Ali’s leadership and Wilayah are the Verse of Purification, the Verse of Mubahala, the Verse of Truthful Ones, the Verse of the Best of the Righteous, the Verse of the People of Remembrance, the Verse of Transaction, the Verse of Whispering, the Verse of the Pious Believers, the Hadith of Thaqalayn, the Hadith of Medina of Knowledge, the Hadith of Standard, the Hadith of Kisa, the Hadith of Testament, the Hadith of the Day of the Mantle, the Hadith of Bird, the Hadith of Brotherhood, the Hadith of Position, the Hadith of Wilayah, the Hadith of Ship, and the Hadith of Closing the Doors.
اقوال اور آثار
:آپ کے اقوال
حضرت علیؑ کی حیات سے ہی لوگوں نے آپ کے اقوال، خطبات و بعض اشعار کو حفظ اور انہیں سینہ بہ سینہ نقل کیا۔ جنہیں بعد میں بعض شیعہ و اہل سنت علماء نے جمع کیا اور ان اقوال کے مجموعے کتاب کی شکل میں شائع ہوئے۔
:نہج البلاغہ
امام علیؑ کے خطبات، مکتوبات و اقوال پر مشتمل مشہور کتاب ہے۔ اس کے مولف سید رضی چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ نہج البلاغہ قرآن کے بعد شیعوں کا مقدس ترین دینی متن اور عرب دنیا کا نمایاں ترین ادبی شہ پارہ ہے۔ یہ کتاب تین حصوں میں مرتب کی گئی ہے: خطبات، خطوط اور مختصر کلمات یا کلمات قصار جو امیرالمؤمنینؑ نے مختلف مواقع پر بیان یا مختلف افراد کے نام تحریر کئے ہیں:
خطبات میں 239 خطبے شامل ہیں۔
خطوط کے حصے میں آپ کے 79 خطوط و مراسلات شامل ہیں اور تقریبا تمام خطوط دوران خلافت تحریر ہوئے ہیں۔
کلمات قصار یا قصار الحکم یا مختصر کلمات میں 480 اقوال شامل ہیں۔
نہج البلاغہ پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں شرح ابن میثم بجرانی، شرح ابن ابی الحدید معتزلی، شرح شیخ محمد عبدہ، شرح علامہ محمد تقی جعفری، حسین علی منتظری کے درس ہایی از نہج البلاغہ، شرح فخر رازي، قطب الدین راوندی کی منہاج البراعہ اور محمد باقر نواب لاہیجانی کی شرح نہج البلاغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[302] اس بات کے پیش نظر کہ نہج البلاغہ امام کے اقوال کا منتخب مجموعہ ہے۔ اس میں تمام اقوال شامل نہیں ہیں لہذا بعض محققین نے آپ کے تمام اقوال کو جمع کونے کی کوشش ہے۔ اصطلاحا ان کتابوں کو مستدرکات نهج البلاغہ کہا جاتا ہے۔
غُرَرُ الحِکَم و دُرَرُ الکَلِم غرر الحکم و درر الکلم کو پانچویں صدی ہجری کے عالم عبدالواحد بن محمد تمیمی نے تالیف کیا ہے۔ غرر الحکم میں تقریباً دس ہزار سات سو ساٹھ (10760) اقوال امام علیؑ سے منقول ہیں جو الف باء کی ترتیب سے اعتقادی، عبادی، سیاسی، معاشی اور سماجی مختلف موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کئے گئے ہیں۔[303]
دستور مَعالمِ الحِکَم و مأثور مکارم الشِیَم دستور معالم الحکم و ماثور مکارم الشیم، کو محمد بن سلامۃ بن جعفر بن علی بن حکمون مغربی شافعی معروف بہ قاضی القضاعی نے تالیف کیا ہے جو پانچویں صدی ہجری کے شافعی علماء میں سے ہیں۔ وہ اہل حدیث کے ہاں بھی صاحب اعتبار ہیں گو کہ بعض لوگوں نے ان کو شیعہ ذکر کیا ہے۔[304]
کتاب “دستور معالم الحکم” نو ابواب میں مرتب کی گئی ہے: حضرت علیؑ کے مفید اقوال و حکم، دنیا کی مذمت، دنیا کی طرف بے رغبتی، مواعظ، وصیتیں اور نواہی (نہی)، سوالات کے جوابات، کلام غریب، نادر کلام، دعا و مناجات اور ایک منظوم کلام جو امامؑ سے ہم تک پہنچا ہے۔[305]
بعض دیگر تالیفات جن میں کلام امام علیؑ کو اکٹھا کیا گیا ہے:
نثر اللآلی تالیف: ابو علی فضل بن حسن طبرسی۔
مطلوب کل طالب من کلام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام، انتخاب: جاحظ، شرح: رشید وطواط۔
قلائد الحکم و فرائد الکلم تالیف: قاضی ابو یوسف یعقوب بن سلیمان اسفراینی۔
امثال الامام علی بن ابیطالب، یہ نصر بن مزاحم کی کتاب الصفین میں منقولہ امام علیؑ کے خطوط و کلمات کا مجموعہ۔
:دیوان اشعار
امام علی علیہ السلام سے منسوب اشعار میں دیوان میں جمع کئے گئے ہیں۔ جو بارہا مختلف ناشرین کی طرف سے شائع ہو چکا ہے۔[306]
:آپ کے مکتوبات
شیعہ منابع و بعض اہل سنت مصادر میں آپ کے مندرجہ ذیل نوشتہ جات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
:جَفْر و جامعہ
جفر و جامعہ، دو کتابوں کے نام ہیں جنہیں رسول اکرم ؐ نے املا فرمایا اور امامؑ نے تحریر کیا ہے۔[307] یہ دونوں کتابیں ودایع امامت و علم امام کے منابع میں ہوتی ہیں۔ [308] کتاب جفر میں مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔[309] امام موسی کاظمؑ کی روایت کے مطابق، نبی و وصی کے سوا کوئی اس کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ اوصیاء کے امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔[310] کتاب جامعہ میں بھی ماضی سے مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس میں تمام آیات کی تاویل، تمام انبیاء کے اوصیاء کے اسماء، ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات موجود ہیں۔ کتاب جامعہ کا بعض افراد نے مشاہدہ کیا ہے۔[311]
:مصحف امام علیؑ
مصحف علی یا مصحف امامؑ، قرآن کا پہلا جمع شدہ نسخہ ہے جسے رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد امام نے جمع کیا گیا۔[312] یہ مصحف اس وقت دسترسی میں نہیں ہے اور روایات کے مطابق، یہ امام علی کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے جو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے مرتب ہوا ہے۔ بعض روایات کے مطابق، اس کے حاشیے میں آیات کے شان نزول و ناسخ و منسوخ کو ذکر کیا گیا ہے۔[313] شیعہ عقاید کے مطابق یہ مصحف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود تھا اور اب امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔[314]
:مصحف فاطمہؑ
مصحف فاطمہؑ اس کتاب کا نام ہے جس کے مطالب فرشتہ الہی نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان کئے اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر کیا ہے۔[315] یہ کتاب جنت میں پیغمبر اکرم ؐ کے مقام اور مستقبل کے واقعات جیسے مطالب پر مشتمل ہے۔[316] یہ کتاب بھی شیعہ ائمہ معصومینؑ کے ہاتھوں میں تھیں اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی ہے اور ان کے علاوہ کسی کی دسترسی نہ اس کتاب تک تھی نہ ہے۔ یہ کتاب اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔[317]
Sayings and Works of Imam Ali (AS)
Sermons, Letters, and Sayings:
Imam Ali ibn Abi Talib (AS), the cousin and son-in-law of Prophet Muhammad (PBUH), played a crucial role in the early Islamic community. His sayings and works are highly regarded by Muslims, and various books and collections have been compiled to document his teachings. Here are some notable aspects of his contributions:
1. Nahj al-Balagha (The Peak of Eloquence)
Nahj al-Balagha is a compilation of Imam Ali’s sermons, letters, and sayings. It is considered one of the most important literary and theological works in Islam. The book is divided into three sections: sermons, letters, and short sayings. It encompasses a wide range of topics, including theology, morality, governance, and wisdom.
2. Ghurar al-Hikam wa Durar al-Kalim
(Exalted Aphorisms and Pearls of Speech):
This compilation includes around 10,760 sayings attributed to Imam Ali (AS). The content covers a diverse array of subjects, such as beliefs, worship, politics, economics, and social issues. It is a valuable resource for those seeking guidance and wisdom from Imam Ali.
3. Mus-haf Imam Ali (Scripture of Imam Ali)
Mus-haf Imam Ali refers to the first compiled copy of the Quran, which was collected by Imam Ali (AS) after the demise of Prophet Muhammad (PBUH). This manuscript was organized in chronological order based on the revelation sequence. It is said to be currently in the possession of Imam Mahdi (AS), the awaited savior in Shia Islam.
4. Mus-haf Fatimah (Scripture of Fatimah):
Mus-haf Fatimah is a book that includes revelations and teachings received by Lady Fatimah (SA), the daughter of Prophet Muhammad (PBUH), from the archangel Gabriel. Imam Ali (AS) compiled this book, and it is considered a sacred text by Shia Muslims.
5. Sermons and Letters to Malik al-Ashtar:
Imam Ali (AS) wrote extensive letters to his governor in Egypt, Malik al-Ashtar, containing valuable advice on governance, justice, and leadership. These letters are considered a comprehensive guide for rulers on how to maintain justice and serve the people.
6. Dua Kumayl:
Dua Kumayl is a supplication taught by Imam Ali (AS) to his companion Kumayl ibn Ziyad. This eloquent prayer expresses profound humility, repentance, and seeking Allah’s mercy. It is recited by Shia Muslims every Thursday night.
7. Munajat of Imam Ali (AS):
Munajat means intimate conversation or supplication. The Munajat of Imam Ali (AS) is a collection of heartfelt prayers expressing deep spiritual connection and devotion to Allah. They reflect the profound spirituality and piety of Imam Ali.
These works and sayings of Imam Ali (AS) continue to inspire and guide Muslims in various aspects of their lives. The teachings emphasize justice, compassion, humility, and devotion to God.
Conclusion:
In conclusion, the legacy of Imam Ali ibn Abi Talib (AS) is deeply ingrained in the rich tapestry of Islamic thought and spirituality. His profound wisdom, encapsulated in Nahj al-Balagha and other compilations, continues to resonate across generations, transcending sectarian boundaries. The sayings and works of Imam Ali reflect a holistic approach to life, addressing matters of governance, morality, and spirituality.
The meticulous compilation of Mus-haf Imam Ali underscores the reverence given to his efforts in preserving the Quranic revelations. Furthermore, his guidance on governance, as evident in the letters to Malik al-Ashtar, provides timeless principles for leaders seeking justice and equity.
The spiritual treasures, such as Dua Kumayl and Munajat, serve as beacons of devotion and connection with the divine. Imam Ali’s teachings emphasize virtues like justice, humility, and compassion, serving as a guiding light for Muslims navigating the complexities of life.
Imam Ali’s contributions extend beyond doctrinal differences, leaving an indelible mark on Islamic scholarship and ethical conduct. As his sayings and works continue to inspire, the enduring relevance of his teachings serves as a testament to the enduring impact of his legacy in the hearts and minds of believers worldwide.
2 comments