×

باب نمبر4: شاعروں کے لطیفے

باب نمبر4: شاعروں کے لطیفے

مولانا محمد حسین آزاد

حسین آزاد کا تعارف

اصلی نام :محمد حسین آزاد

پیدائش :05 مئی 1830  ء دلی

وفات :22 جنوری1910 ء لاہور, پنجاب

(استاد): شیخ ابراہیم ذوقؔ

                                  اردو ادب میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس نے دیوانگی اور جنون کی کیفیت میں بھی وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ عالم فرزانگی میں بہت سے لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس نے نہ صرف اردو نژ کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی۔’’آب حیات‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی تاریخ لکھی کہ اس کی ابدی زندگی کی ضمانت بن گئی۔ اس گراں مایہ شخصیت کا نام محمد حسین آزادؔ ہے۔

محمد حسین ؔ آزادؔ کی پیدایش 5، مئی 1830 عیسوی کو دہلی میں ہوئی ان کے والد مولوی محمد باقر شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔

    ڈاکٹر لائنز کی کوششوں اور محبتوں کی وجہ سے آزادؔ انجمن پنجاب کے سکریٹری مقرر کر دیے گئے۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے کا بھرپور موقع ملا۔ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی پروفیسر کی حیثیت سے ان کی عارضی تقرری ہو گئی اور پھر اسی عہدے پر مستقل کر دے گئے۔

آزادؔ ایک اہم انشاپرداز، ناقد اور محقق بھی تھے انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور نشو ونما، اصلیت زبان پر تحقیقی مضامین بھی لکھے ۔

محمد حسین آزاد نظم کے اولین شاعروں میں بھی ہیں جنہوں نے صرف نظمیں لکھیں بلکہ نظم نگاری کو ایک نئی جہت بھی عطا کی اردو نثر اور نظم کو نیا مزاج عطا کرنے والے محمد حسین آزاد پر آخری وقت میں جنون اور دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ جنون کی حالت میں ہی ان کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وجہ سے آزادؔ کا اضمحلال اور بڑھتا گیا۔ آخر کار ۲۲؍ جنوری ۱۹۱۰ عیسوی میں آزاد ۹۶ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔

محمد حسین آزادؔ نے اپنی زندگی کا سفر انگریزوں کی مخالفت سے شروع کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے اخبار میں انگریزوں کے خلاف سخت مضامین لکھتے رہتے تھے۔ مخالفت کی پاداش میں جب انگریزوں نے ان کے والد کو موت کے کھاٹ اتار دیا وہیں زاویہ تقرری تبدیلی کی وجہ سے علم دوست انگریزوں نے محمد حسین آزادؔ کو حیات جاودانی عطا کر دی اور انہیں شمس العلماکا خطاب بھی عطا کیا۔

خلاصہ سبق

مولانا محمد حسین آزاد صاحب طرز نثر نگار اور شاعر تھے۔ سبق شاعروں کے لطیفے ان کی کتاب آب حیات سے لیا گیا ہے میں شاعروں کی شاعرانہ اور نجی زندگی کے تذکرے پیش کئے گئے ہیں۔

ایک دن لکھنو میں میر اور مرزا کے کلام پر دو شخصوں میں تکرار نے طول کھینچا دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ -ان کے پاس گئے اور عرض کی آپ فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں صاحب کمال ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ می صاحب کا کلام “آہ ” ہے اور مرزا صاحب کا کلام “واہ ” ہے۔

ایک دن مرزا سود مشاعرے میں بیٹھے تھے ایک شریف زادہ جس کی عمر 12 سے 13 برس تھی اس نے غزل پڑھی تو سودا چونک پڑے اور کہا میاں لڑکے آپ جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا

۔ 3-انشاءاللہ خان ایک دن جرات سے ملنے آئے وہ کچھ سوچ رہے تھے انشاء نے پوچھا کیا خیال کرتے ہو جرات نے کہا ایک مصرع خیال میں آیا ہے خوب مصرع ہے چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے لیکن تمہیں نہ بتاؤں گا۔ بہت اصرار پر جب انہوں نے مصرع سنایا تو اس کے دوسرے مصرع کو انشاء نے مزاحیہ رنگ دے دیا۔ جس پر جرات ہنس پڑے اور لکڑی لے کر ان کے پیچھے دوڑے۔ جرات نابینا تھے

۔ 4- ایک مشاعرے میں شیخ امام بخش ناسخ جب پہنچے تو جلسہ ختم ہو چکا تھا۔ چند شعراء ابھی باقی تھے۔ جب شیخ صاحب نے مطلع پڑھا تو اس میں امام کاذکر تھا اور چونکہ ان کا نام بھی امام بخش تھا اس لیے تمام اہل جلسہ نے نہایت تعریف کی۔

حیدر علی آتش کا ایک شاگرد بے روزگاری سے تنگ آکر بنارس جانا چاہتا تھا جب وہ ان سے ملنے کے لیے آیا اور کہا کہ کچھ فرمائش ہو تو فرمادیجئے۔ آپ ہنس کر بولے اتنا کام کرنا کہ وہاں کے خدا کو ذرا ہمار اسلام کر دینا۔ وہ حیران ہو کر بولے وہاں کا خدا کیا جدا ہے۔ خواجہ صاحب بولے کہ اگر یہاں وہاں کا خدا ایک ہے تو اس سے یہاں بھی مانگو وہ ضرور دے گا یہ سن کر ان کے شاگرد نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

  ایک دن معمولی در بار تھا۔ ابراہیم ذوق بھی حاضر تھے۔ ایک مرشد زادہ ایک مرشد زادی کی طرف سے ایک عرض لے کر آیا اور بادشاہ سے کچھ کہہ کر رخصت ہو گیا۔ حکیم احسن اللہ خان نے کچھ پوچھا تو صاحب عالم نے کہا کہ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے ۔

مرزا غالب کی قاطع برہان بہت مشہور ہوئی بہت لوگوں نے تحقید بھی کی ہے کسی نے کہا کہ حضرت آپ نے فلاں شخص کی کتاب کا جواب نہ لکھا۔ آپ نے فرمایا ” بھائی اگر کوئی گدھا تمہیں لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دو گے”۔