×

Complete Notes: Stopping By Woods On A Snowy Evening

Complete Notes: Stopping By Woods On A Snowy Evening

Chapter No: 8

Stopping By Woods On A Snowy Evening

برفباری کی ایک شام جنگل کے پاس رکنا

(By Robert Frost)

(For Extra-Ordinary Students)

The poem “Stopping by Woods on a Snowy Evening” was written by Robert Frost, a well-known American poet. The main theme of the poem revolves around a traveler who is passing through woods that are lovely, dark, and deep.

The woods are so enchanting and awe-inspiring that the poet is compelled to stop his horse to stare at the beauty of the Woods. It is one of the darkest evenings of the Year. Snowfalling is in full swing. Snowflakes are downy. His pony-horse is thinking it queer to stop by the forest without a farmhouse nearby.

There is a frozen Lake beside the woods. There are sounds of the harness bells of his horse and the wind blowing through the trees.

The traveler is wondering about the ownership of the woods and who is the owner of the woods. He probably knows the owner of the Woods who is living in the village.

The poet is deeply fascinated by the natural beauty of the woods. These lovely, dark, and deep woods attract him so much but he has much more important business to do. He has to go a long way before taking a rest.

Sleep in this poem is a symbol of everyday sleep and also it stands for the eternal sleep, that is, death.

The poem is an excellent and beautiful piece of poetry. It is no less than a symbolic Masterpiece.

ترجمہ

نظم برفباری کی ایک شام جنگل کے پاس رکنا رابرٹ فراسٹ جو کہ ایک مشہور زمانہ امریکن شاعر ہے۔ نظم کا مرکزی خیال ایک مسافر کے گرد گھومتا ہے۔ جو کہ خوبصورت تاریک اورگھنے جنگل سے گزر رہا ہے۔ جنگل اتنی زیادہ کشش اپنے اندر رکھتا ہے اور انتہائی بارعب، یہی وجہ ہے کہ وہ جنگل کو دیکھنے کے لئے رکنے پر مجبور ہو جاتا ہے”

جنگل کے کنارے ایک منجمد جھیل بھی ہے۔ مسافر کے گھوڑے کے ساز کی گھنٹیوں اور ہوا کے چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ مسافر جنگل کی ملکیت کے بارے میں حیرت زدہ ہو کر سوچ رہا ہے کہ اس کا مالک کون ہے؟ شاید وہ اس کے مالک کو جانتا ہے جو کہ قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔

شاعر جنگل کے قدرتی حسن سے پوری طرح مسحور ہو چکا ہے۔ یہ خوبصورت تاریک اور گہرے جنگل اسے اپنی جانب اتنا زیادہ کھینچتے ہیں لیکن اس کے پاس کرنے کے لیے زیادہ اہم کام ہے۔ اسے سونے سے پہلے میلوں دور کا سفر طے کرنا ہے۔

نیند اس نظم کے اندر روز مرہ کے معمول کی نیند کی ایک علامت ہے یہ ابدی نیند جو کہ موت کی بھی علامت ہے۔ یہ نظم ا علی اور خوبصورت شاعری کا ایک نمونہ ہے۔ یہ کسی صورت میں ایک علامتی شاہکار سے کم نہیں۔

(For Ordinary Students)

The poem “Stopping by Woods on a Snowy Evening” was written by Robert Frost۔ it tells the story of a man who is traveling to his hometown۔ when he reaches the woods، he is enchanted by their natural beauty۔ he wonders whose woods are these? He knows the owner who is living in the nearby village. His horse is thinking it strange to stop by the woods while. There is no farmhouse in sight. His horse gives a shake to the harness bells. There is a frozen lake and snowflakes to be seen. The wind is passing through the trees. The woods are lovely, dark, and deep. But the poet has so many things to do and he has many miles to go before he can go to bed for sleeping.

ترجمہ

نظم “برفباری کی ایک شام جنگل کے پاس رکنا” رابرٹ فراسٹ نے تحریر کی ہے۔ یہ نظم ایک ایسے آدمی کی کہانی بیان کرتی ہے جو اپنے گاؤں جا رہا ہے۔ جب وہ جنگل میں پہنچتا ہے تو وہ اس کے قدرتی حسن سے مسحور ہوجاتا ہے۔ وہ حیرت زدہ ہو کر سوچتا ہے کہ کس کا جنگل ہے۔ شاید وہ اس کے مالک کو جانتا ہے جو قریبی گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کا گھوڑا جنگل کے پاس رکنے کو عجیب خیال کر رہا ہے جب کہ کوئی فارم ہاؤس بھی قریب نہیں ہے۔ اس کا گھوڑا اپنے ساز کی گھنٹیوں کو جھٹکا دیتا ہے۔ ایک منجمد جھیل اور برف کے نرم گالے نظر آ رہے ہیں۔ ہوا درختوں میں سے گزر رہی ہے اور جنگل خوبصورت تاریک اور گہرا ہے۔ لیکن شاعر کو سونے سے پہلے بہت سارے کام کرنے ہیں اور میلوں دور کا سفر کرنا ہے

Stanza:

Whose woods these are I think I know.

His house is in the village though;

He will not see me stopping here

To watch his woods fill up with snow.

یہ کس کا جنگل ہے میرا خیال ہے میں جانتا ہوں

اگرچہ اس کا گھر گاؤں میں ہے

وہ مجھے یہاں رکتا ہوا نہیں دیکھے گا

اور نہ ہی اپنا برف سے بھرا ہوا جنگل دیکھنے آئے گا.

Reference:

These lines have been taken from the poem “Stopping by Woods on a snowy evening” written by Robert Frost.

Context:

The poet tells us the story of a man who is traveling to his town. When he reaches near a dark snowy woods he stops there to enjoy it.

شاعر ہمیں ایک ایسے آدمی کی کہانی سناتا ہے جو اپنے قصبہ کی طرف سفر کر رہا ہے۔ جب وہ ایک تاریک برفانی جنگل کے قریب پہنچتا ہے وہ اس کی خوبصورتی سے سحر زدہ ہو جاتا ہے اور اس کا لطف اٹھانے کے لیے وہاں رک جاتا ہے۔

Paraphrase:

The poet has stopped near the snowy woods. He first wonders who owns these woods. In the same breath, he tells us that he thinks he does know who owns them. The owner of the woods lives in a house in the village. He would not come to watch his woods. So, he would not get into trouble for trespassing on his land.

شاعر برفانی جنگل کے پاس ٹھہر گیا ہے۔ پہلے وہ حیران ہوتا ہے کہ ان جنگلات کا مالک کون ہے۔ فورا اس بیان کے برعکس وہ سوچتا ہے کہ وہ ضرور جانتا ہے کہ اس کا مالک کون ہے۔ جنگل کا مالک گاؤں کے ایک گھر میں رہتا ہے۔ وہ اپنے جنگل کو دیکھنے کے لئے نہیں آئے گا۔ اس لیے وہ اس کی زمین پر بلا اجازت داخل ہونے پر مصیبت میں نہیں پڑے گا۔

Stanza:

My little horse must think it queer

To stop without a farmhouse near

Between the woods and frozen lake

The darkest evening of the year

میرے چھوٹے سے گھوڑے کو بڑا عجیب لگتا ہے

جنگل کے پاس فارم ہاؤس کے بغیر رکھنا

جنگل اور منجمد جھیل کے درمیان

سال کی تاریک ترین شام کو

Reference:

These lines have been taken from the poem “Stopping by Woods on a snowy evening” written by Robert Frost.

Context:

The poet is not alone, his little horse is with him. He psycho-analyzes his little horse and guesses he is saying something to him.

شاعر اکیلا نہیں ہے، اس کا چھوٹا گھوڑا اس کے ساتھ ہے۔ وہ اپنے جھوٹے گھوڑے کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ وہ اسے کچھ کہہ رہا ہے۔

Paraphrase:

The poet is not alone. He has a horse, and his horse is little. He and his little horse spend a lot of time together. He psycho-analyzes his little horse and supposes his horse thinks it strange to be stopping in the middle of nowhere, with no one in sight, with not even a farmhouse nearby, and no sign of hay. The poet and his little horse are feeling cold between the woods and a frozen lake. It happens to be the darkest evening of the year.

شاعر اکیلا نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک گھوڑا ہے اور یہ گھوڑا چھوٹا ہے۔ وہ اور اس کا گھوڑا بہت سا وقت اکٹھے گزارتے ہیں وہ اپنے چھوٹے گھوڑے کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ اس کا گھوڑا سوچ رہا ہے کہ اس جگہ کے درمیان میں رکنا عجیب و غریب ہے، جہاں نہ کوئی نظر آتا ہے اور نہ ہی قریب کوئی فام ہاؤس ہے اور نہ کوئی نظر آتا ہے۔ شاعر اور اس کا گھوڑا جنگل اور جمی ہوئی جھیل کے درمیان سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ یہ سال کی تاریک ترین رات واقع ہوئی ہے۔

Stanza:

He gives his harness bells a shake

To ask if there is some mistake.

The only other sound’s the sweep

Of easy wind and downy flake.

وہ اپنے ساز کی گھنٹیوں کو زور سے ہلاتا ہے

یہ پوچھنے کے لئے کہ آیا یہاں رکنا ہماری کوئی غلطی تو نہیں

اور آنے والی مزید آوازیں تو بس

ہلکی ہوا کے چلنے اور برف کے نرم گالوں کے گرنے کی ہیں

Reference:

These lines have been taken from the poem “Stopping by Woods on a snowy evening” written by Robert Frost.

Context:

Even though the poet can read his little horse’s mind, the horse can’t talk back. He chooses the option of shaking his harness bells to get his attention.

اگرچہ شاعر اپنے جھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے لیکن گھوڑا جوابی گفتگو نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے مالک کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ساز و یراق کی گھنٹیوں کو جھٹکا دینے کا انتخاب کرتا ہے۔

Paraphrase:

The horse cannot stand in chill any longer and is losing its spirit. Even though the poet can read his little horse’s mind, the horse cannot express his feelings. He has some harness bells on his back and gives them a little shake to ask his master if there is something awry or a problem. I am losing my spirit. In addition to the sound of harness bells, the only other sounds are of a slight wind and falling snow.

گھوڑا مزید سردی میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا اور ہمت ہار رہا ہے۔ اگرچہ شاعر اپنے چھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے، گھوڑا اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اس کی کمر پر کچھ ساز و یراق کی گھنٹیاں ہیں وہ اپنے مالک سے یہ پوچھنے کے لیے کہ آیا یہاں کچھ غلط ہے یا کوئی مسئلہ ہے ان کو ہلکا سا جھٹکا دیتا ہے۔ میں اپنی ہمت ہار رہا ہوں۔ ساز و یراق کی گھنٹیوں کے علاوہ صرف دوسری آوازیں ہلکی ہوا کے چلنے اور برف کے گرنے کی ہیں۔

Stanza:

The woods are lovely, dark, and deep.

But I have promises to keep,

And miles to go before I sleep.

And miles to go before I sleep.

جنگل دلکش، تاریک اور وسیع ہے

لیکن مجھے تو وعدوں کو نبھانا ہے

اور مجھے سونے سے پہلے میلوں دور جانا ہے

اور مجھے سونے سے پہلے میلوں دور جانا ہے

Reference:

These lines have been taken from the poem “Stopping by Woods on a Snowy Evening” written by Robert Frost.

Context:

Even though the poet can read his little horse’s mind, the horse can’t talk back. He chooses the option of shaking his harness bells to get his attention.

اگرچہ شاعر اپنے چھوٹے گھوڑے کے ذہن کو پڑھ سکتا ہے لیکن گھوڑا جوابی گفتگو نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے مالک کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ساز کی گھنٹیوں کو جھٹکا دیتا ہے۔

Paraphrase:

The poet admits to having a great passion for the dark beautiful snowy woods, but he tells us he has things to do, people to see, and places to go. He has got a long way to go before he can take a rest. So, he has miles to cover before going to bed.

شاعر مانتا ہے کہ وہ تاریک خوبصورت برفانی جنگل کو بے حد پسند کرتا ہے لیکن وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسے آرام کرنے سے پہلے بہت سے کام کرنے ہیں، لوگوں سے ملنا ہے، کی جگہوں پر جانا ہے۔ سونے سے پہلے میلوں دور کا سفر طے کرنا ہے۔

Q: Who is the speaker in the poem?

A: The speaker in the poem is the horse rider.

Q: Whom does the speaker refer to in the first stanza of the poem?

A: The speaker refers to the owner of the woods.

Q: Why does the speaker stop on “the darkest evening of the year”?

A: He thinks of stopping on the darkest evening of the year because the woods are lovely, dark, and deep.

Q: Why does the horse impatiently await the next move of his master?

A: The horse impatiently awaits the next move of his master as there is no farmhouse nearby. He would not be able to get any food. He is also fearful that he might have made some mistakes.

Q: The speaker in the poem is captivated by the beauty of nature. Why doesn’t he stop for long to enjoy nature’s beauty?

A: He is captivated by the beauty of the dark, deep, and lovely woods but he has promises to keep that is to say that he has some worldly tasks to accomplish. Therefore, he does not stop there for long.

2 comments

comments user
“oppna ett binance-konto

Your point of view caught my eye and was very interesting. Thanks. I have a question for you.

comments user
binance signup

Your point of view caught my eye and was very interesting. Thanks. I have a question for you.