×

WONDERFUL VIEW INTO THE GRACEFUL LIFE OF IMAM ALI AS

WONDERFUL VIEW INTO THE GRACEFUL LIFE OF IMAM ALI AS

خلفائے ثلاثہ کا دور اور حیات امام علیؑ

خلفائے ثلاثہ کے 25 سالہ دور میں امام علیؑ تقریبا امور سیاسی و حکومتی سے دور رہے اور فقط علمی و سماجی امور کی انجام میں مشغول رہے۔ جیسے جمع آوری قرآن جو مصحف امامؑ کے نام سے مشہور ہے، مختلف امور میں خلفاء کو مشورہ دینا، فقراء کو انفاق کرنا، تقریبا ایک ہزار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، زراعت و شجر کاری، نہریں کھودنا، تعمیر مساجد جیسے مدینہ میں مسجد فتح، جناب حمزہؑ کی قبر کے پاس مسجد کی تعمیر، میقات میں ایک مسجد کی تعمیر اور اسی طرح سے مقامات و ملک کو وقف کرنا، جن کی سالانہ آمدنی 40 ہزار دنیار تک بتائی گئی ہے۔

اس دور کے بعض اہم امور کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

:حضرت ابوبکر کا دور

ابو بکر کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

خانہ امام علیؑ پر حملہ و ابوبکر کے لئے جبری بیعت[201″]

غصب فدک “[202]

شہادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

:اجباری بیعت

بیعت سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض صحابہ کی خلافت ابوبکر کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی عمر کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔[203] ابوبکر نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے قُنفُذ نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علیؑ بن ابیطالبؑ کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، عثمان، خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، ابو عبیدہ جراح اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔[204] اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپؑ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور انؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا۔

امامؑ نے جواب دیا: “میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خداﷺ کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔”[205]

بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو حضرت فاطمہ زہراؑ کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔[206] البتہ شیخ مفید کا ماننا ہے کہ امامؑ نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔[207]

:خلافتِ ابوبکر میں آپؑ کا رویہ

خلافت ابوبکر کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علیؑ تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علیؑ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔[208] اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امامؑ کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر مسلمانوں کی طرح مدینہ سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔[209] آپؑ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور اسلام و مسلمین کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو خلیفہ کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ یعقوبی اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے فقہ حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔[210] ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح شام کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔[211]

Khulafa-e-Rashideen

Imam Ali’s Focus on Scholarship and Social Matters

During the 25-year era of the Rightly Guided Caliphs (Khulafa-e-Rashideen), Imam Ali (may Allah be pleased with him) dedicated himself to scholarly and social endeavors, distancing himself from political affairs. His notable contributions include compiling the Quran, advising caliphs, charity work, freeing slaves, engaging in agriculture, canal construction, and mosque building.

Events During Abu Bakr’s Caliphate

In Abu Bakr’s caliphate, several crucial events unfolded, such as the forced allegiance to Imam Ali, the seizure of Fadak, and the tragic martyrdom of Hazrat Fatimah (may Allah be pleased with her). The coerced allegiance led to conflicts, with Imam Ali refusing to pledge allegiance. Recognizing the severity, Abu Bakr and Umar decided to force Imam Ali into allegiance.

Imam Ali’s Firm Response

Imam Ali firmly asserted his rightful leadership, proposing that others pledge allegiance to him instead. He emphasized the Ansar’s loss of leadership after Prophet Muhammad’s demise and the imposition of leadership on his family.

Historical Disagreements on Allegiance Timing

Disagreements exist on the timing of the allegiance, with some claiming it occurred after Hazrat Fatimah’s death or 40 days later. Sheikh Mufeed maintains that Imam Ali never pledged allegiance to Abu Bakr.

Imam Ali’s Role During Abu Bakr’s Caliphate

Despite being overlooked for formal positions, Imam Ali was consulted on important matters during Abu Bakr’s two-year caliphate. According to Sunni perspectives, Abu Bakr sought Imam Ali’s advice in critical matters, refraining from letting him leave Medina. Despite not holding formal positions, Imam Ali cooperated when his advice was crucial for Islam’s welfare.

Varied Historical Records and Interpretations

It’s crucial to note that historical records may vary, and interpretations differ among scholars from different sects within Islam.

:حضرت عمر

حضرت ابوبکر نے اپنی وصیت میں جسے عثمان نے تحریر کیا، لوگوں کو عمر کی پیروی کی دعوی دی اور اعلان کیا: میں عمر بن خطاب اپنے بعد تمہارا حاکم معین کرتا ہوں۔ ان کے بات سنیں اور ان کے اطاعت کریں۔[212] امام علیؑ نے ان کے اس اقدام پر سکوت اختیار کیا۔ لیکن بعد میں آپ نے اس اقدام کو مذموم و ناحق بتایا اور اس کی توصیف ان الفاظ میں کی: تعجب خیز ہے، حیرت انگیز ہے کہ ابوبکر اپنی حیات میں لوگوں سے اپنی بیعت فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے (جیسا کہ وہ کہتے تھے مجھے چھوڑ دو میں تم بہترین نہیں ہوں) لیکن خلافت کو دوسرے کے لئے مضبوط کرتے رہے۔ ان دو لوگوں (ابوبکر و عمر) نے شتر خلافت کے پستانوں کو سختی کے ساتھ دوہا۔ جبکہ میری برجستگی ان کے دونوں کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ میں اس دریا کی مانند ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی آ کر گذر جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو میرے علم کی بلندی تک پہنچ سکے … میں نے شجاعت کے ساتھ اس طولانی مدت میں نہایت اندوہ کے ساتھ اس پر صبر کیا۔[213]

:خلافت عمر میں آپؑ کا رویہ

حضرت عمر کی خلافت دس سال تک رہی اور امام علیؑ نے ابوبکر کے دور خلافت کی عمر کے دور میں بھی کسی طرح کا کوئی بھی منصب قبول کرنے سے پرہیز کیا۔ لیکن ایک مشاور کے عنوان سے عمر کے ساتھ رہے اور ان کے اپنے مشوروں کے ذریعہ سے مدد کی۔[214] جیسا کہ اہل سنت مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عمر کوئی بھی کام امام علیؑ کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لئے عمر، امام کی خردمندی، دقت نظر اور تدین کے قائل تھے۔[215] امامؑ نے ان زمانے کی فتوحات کے مقابلہ میں وہی موقف اختیار کیا جو ابوبکر کے دور میں اختیار کیا تھا، لیکن چونکہ اس زمانہ میں فتوحات کا دائرہ بیحد وسیع ہو چکا تھا۔ لہذا امامؑ کا کردار بھی ابوبکر کے دور سے زیادہ ملموس و چشمگیر تھا۔ کسی بھی تاریخی یا حدیثی ماخذ میں ان فتوحات میں امامؑ کی شرکت کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس دور کی کسی بھی کتاب میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے کہ عمر نے امام علیؑ سے کوئی مشورہ طلب کیا ہو اور امامؑ نے اس سے منع کیا ہو۔ بلکہ امام باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق، عمر امور حکومت کو، جن میں مہم ترین مسئلہ فتوحات کا تھا، امام علیؑ کے مشورہ سے انجام دیا کرتے تھے۔[216] دوسری طرف اصحاب و پیروان علیؑ نے ان فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  انصار میں سے چند افراد کے سوا سب نے علیؑ کی بیعت کی۔ مخالفین میں حسان بن ثابت، کعب بن مالک، مسلمہ بن مخلَّد، محمد بن مُسًلمہ اور چند دیگر افراد شامل تھے؛ جنہیں عثمانیہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ غیر انصاری مخالفین میں عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، اور اسامہ بن زید کی طرف شارہ کیا جاسکتا ہے جو عثمان کے قریبیوں میں شمار ہوتے تھے۔[217] حضرت علیؑ کی جانب سے لوگوں کی بیعت قبول نہ کرنے کا سبب جیسا کہ نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے معلوم ہوتا ہے، یہ تھا کہ آپ اپنے دور کے معاشرے کو اس قدر فساد زدہ سمجھتے تھے کہ جس کی قیادت کرنا، اس میں اپنے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنانا آپؑ کے لئے ممکن نہ تھا۔[218]

Abu Bakr’s Will and Imam Ali’s Silence

In Abu Bakr’s will, transcribed by Uthman, people were urged to follow Umar as the designated leader after him. Imam Ali (may Allah be pleased with him) initially remained silent about this directive. However, he later condemned and deemed it unjust, expressing astonishment that Abu Bakr, who advocated relinquishing allegiance during his life, reinforced the caliphate for others after his death.

Imam Ali’s Reaction to Forced Allegiance

Imam Ali rejected any formal position during Umar’s ten-year caliphate, demonstrating similar reluctance as in Abu Bakr’s era. Despite abstaining from official roles, he retained the title of a consultant, aiding Umar through his counsel. According to Sunni sources, Umar consistently sought Imam Ali’s advice and refrained from making decisions without his input.

Imam Ali’s Firm Stand in Umar’s Caliphate

Imam Ali maintained a consistent stance during Umar’s caliphate, akin to Abu Bakr’s period. However, the scope of conquests had expanded significantly, and Imam Ali’s role became even more prominent. Historical records or narrations don’t explicitly mention Imam Ali’s participation in these conquests. According to a narration attributed to Imam Baqir, Umar sought Imam Ali’s counsel in governance matters, particularly concerning significant issues like conquests.

Diverse Reactions to Imam Ali’s Leadership

While some Ansar pledged allegiance to Imam Ali, dissenters like Hassan bin Thabit, Kaab bin Malik, Muslima bin Mukhlad, and Muhammad bin Muslima were associated with the Uthmaniyyah faction. Among non-Ansar dissenters, Abdullah bin Umar, Zaid bin Thabit, and Osama bin Zaid were noteworthy. Despite opposition, Imam Ali’s followers played a significant role in these conquests.

Reasons for Rejecting Allegiance

Imam Ali’s refusal to accept people’s allegiance was rooted in his perception of society’s corruption. He believed that leading a society steeped in corruption, where personal ambitions and agendas prevailed, was incompatible with his principles.

Conclusion: Imam Ali’s Principled Stand

Imam Ali’s steadfastness in refusing formal positions during Umar’s caliphate underscored his principled stance against perceived societal corruption and injustice. The intricate dynamics of this era reveal the complexities of political and social engagements, reflecting the challenges faced by leaders and dissidents alike.

والی و کارگزار

ؑفہرست اصحاب امام

امام علیؑ نے اپنی حکومت کے دوران اپنے والی و گورنر مختلف اسلامی شہروں میں تعینات کئے جیسے: عثمان بن حنیف کو بصرہ، عمارہ بن شہاب کو کوفہ، عبید اللہ بن عباس کو یمن، قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر، سہل بن حنیف کو شام کا والی بنا کر بھیجا۔ شام جاتے ہوئے سہل بن حنیف جب تبوک پہچے تو وہاں ان کو اور گروہ کے درمیان بحث ہوگئی اور ان لوگوں نے انہیں واپس بھیج دیا۔ عبید اللہ بن عباس جب یمن پہنچے تو یعلی بن منیہ جو عثمان کی طرف سے یمن میں والی تھا، اس نے بیت المال میں جو کچھ تھا اسے لیکر مکہ بھاگ گیا۔ عمارہ بن شہاب جب مدینہ و کوفہ کے درمیان زبالہ کے مقام پر پہنچے تو طلیحہ بن خویلد جو عثمان کی خون خواہی کے نکلا تھا جب اس نے انہیں دیکھا اور اسے پتہ چلا کہ یہ کوفہ کی حکومت کے لئے جا رہے ہیں تو ان سے کہا: واپس لوٹ جاو اہل کوفہ اپنے والی کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کریں گے اور اگر تم واپس نہیں جاتے تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ لہذا وہ واپس لوٹ آئے اور کچھ عرصہ کے بعد آپؑ نے مالک اشتر کی سفارش پر ابو موسی اشعری کو وہاں کی حکومت پر باقی رکھا۔

Governors Appointed by Imam Ali during His Caliphate

During his caliphate, Imam Ali (may Allah be pleased with him) appointed various governors for different Islamic cities. Notable appointments include:

  1. Uthman bin Hunaif – Basra:
    • Uthman bin Hunaif was appointed as the governor of Basra.
  2. Ammar bin Yasar – Kufa:
    • Ammar bin Yasar was appointed as the governor of Kufa.
  3. Ubaidullah bin Abbas – Yemen:
    • Ubaidullah bin Abbas was appointed as the governor of Yemen.
  4. Qais bin Saad bin Ubadah – Egypt:
    • Qais bin Saad bin Ubadah was appointed as the governor of Egypt.
  5. Sahl bin Hunaif – Governor Sent to Syria:
    • Sahl bin Hunaif was appointed as the governor and sent to Syria.

While Sahl bin Hunaif was in Tabuk, a dispute arose between him and the locals. Ultimately, the people decided to send him back. When Ubaidullah bin Abbas reached Yemen, he fled to Mecca with some funds from the public treasury (Bait al-Mal).

When Ammar bin Yasar arrived at the designated place between Medina and Kufa, Taliha bin Khuwailid, who had ties with Uthman, confronted him. Taliha warned that the people of Kufa would only accept someone appointed by their governor.

Faced with opposition, Ammar bin Yasar returned to Medina. After some time, on the recommendation of Malik Ashtar, Abu Musa Ashari was appointed as the governor of Kufa.

These incidents reflect the challenges Imam Ali encountered in maintaining stable governance during his caliphate.

SUMMARY:

Imam Ali (may Allah be pleased with him) appointed various governors during his caliphate, including Uthman bin Hunaif in Basra, Ammar bin Yasar in Kufa, Ubaidullah bin Abbas in Yemen, Qais bin Saad bin Ubadah in Egypt, and Sahl bin Hunaif in Syria. However, some of these appointments faced challenges, with governors encountering disputes and opposition. Notably, Sahl bin Hunaif and Ubaidullah bin Abbas faced resistance, leading to their return. The appointment of Abu Musa Ashari as the governor of Kufa was eventually successful, highlighting the complexities Imam Ali faced in maintaining stable governance.

:حوالہ جات

 مفید، مسار الشیعۃ، ص 17۔

 سید بن طاوس، ص 584۔

مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۱۵۳۔

 مسعودی، مروج الذهب، ۳:‎ ۶۳۔

 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۲۱۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۵۴-۳۵۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۳۹۵؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج۳، ص۱۳۳؛ اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۶۷۔

 ری شہری، ج1، ص108۔

المفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۵۴۔

 رقیہ و عمر دوقلو بودہ‌اند۔

 مفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ھ، ص 270-271۔

 ابن سعد، ج 3، ص 24۔

 احمدی، «تحلیل روایی – تاریخی پرچم‌داری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص۳۷۔

 ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔

 بلاذری، ج1، ص2883 ۔

 ابن‌حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۱۹۰۔

 بلاذری،‌ أنساب ‏الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۵۲۔

 طبری، ج 2، ص 148۔

 واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج‌۱، ص‌۹۱۔

 ابن ہشام، ج 1، ص 708-713۔

 سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، ص۴۵۴، نامہ ۶۴۔

 واقدی، المغازى، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۴۰۔

 دیلمی، إرشاد القلوب إلى الصواب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۶۔

 کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۰۔

ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۵۴۔

 ابن‌ ہشام، ج3، ص235۔

 ابن کثیر، البدایه و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۲۱ مجلسی، ج‏20، ص‏ 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978

 ابن ہشام، ج 2، ص 328۔

 مسلم، ج 15، ص 178-179۔

 مفید، ارشاد، 590۔

 حلبى، ج 3، ص 30۔

آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۵۹۔

 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۲۔

 مفید، ارشاد، ج 1، ص 156؛ ابن ہشام، ج 4، ص 163۔

 واقدی، المغازى، ۱۴۰۹، ج۲ ص۵۶۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۰، ج۲، ص۶۹؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، ۱۹۹۵، ج۴، ص۲۳۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۲، ص ۶۴۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۰۹۔

 آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۶۱، ص ۵۷۶۔

 ابن هشام، السیرة النبویة، ج ۴، ص ۳۱۹؛ واقدی، کتاب المغازى، ۱۴۰۹، ج۳، ص۸۲۶ و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، ۱۳۷۴، ج ۱، ص۱۴۱ و ۱۵۳۔

طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج ۳، ص ۱۳۱-۱۳۲، ۱۳۸۷ق؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج ۲، ص ۶۹۰-۶۹۱، ۱۴۰۹ق؛ مفید، الارشاد، ج ‏۱، ص ۶۲، ۱۴۱۳ق۔

 ابن سعد، الطبقات الکبری‏، ج ۲، ص ۱۲۸-۱۲۹، ۱۴۱۰ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ‏۳، ص ۱۸۰۲-۱۸۰۳، ۱۴۰۹ق۔

 ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۲۲۵، ۱۴۲۱ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۴۵، ۱۴۱۱ق۔

 کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۴۵۔

 رشید رضا، المنار، ۱۹۹۰م، ج۶، ص۳۸۴۔

 شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۱۔

 اربلی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة، ۱۳۸۱ق، ج۱، ص۲۳۷۔

ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۰، ص۴۳۰؛ با کمی تفاوت: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۷۴۔

 رجوع کریں: ابن‌ مغازلی، ص 16؛ کلینی، ج1، ص290؛ طبرسی، احتجاج، ج1، ص73؛ علی بن ابراہیم، ج1، ص 173؛ رشیدرضا، ج6، ص464ـ465۔

 احمد بن حنبل،مسند ،1/119۔محمد بن یزید قزوینی،سنن ابن ماجہ،1/43/116۔نسائی،فضائل الصحابہ،14ابو یعلی موصلی،مسند ابی یعلی،1/429۔شیخ صدوق،معانی الاخبار،67/8۔محمد بن سلیمان کوفی، مناقب امیر المومنین،2/368/844قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار،1/100/24۔ ابو الحسن علی بن محمد بن طبیب واسطی المعروف بہ ابن مغازلی شافعی، ابن مغازلی، مناقب علي بن ابي طالب، ص 24۔

 مفید، الارشاد، ج ۱ ص ۱۸۶

 مظفر، السقیفہ ۱۴۱۵، ص۹۵۔۹۷

 ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8۔

 طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔

 حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص۴۰ و ۴۱.کلینی، ج۱، ص۵۴۳

 پیشوائی، ج 2، ص 191۔

 ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔

 ابن قتیبہ، ج۱، ص۲۸۔

 يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۵۲۷.

 مفيد، الفصول المختارہ، ص ۵۶-۵۷۔

 جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔

 رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیه‌السلام، ص۲۵۳۔

 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۸.

 ازدی‌، تاریخ فتوح الشام‌، ص‌۴-۵۴؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی‌، ج‌۲، ص ۱۳۳۔

 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۳۷۔

 نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ۔

 ابن حجر عسقلانى، الاصابه فى تمییز الصحابه، ۱۳۲۸ق، ج ۲، ص ۵۰۹؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۳۲۸ق، ج ۳، ص ۳۹۔

 جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔

 صدوق‌، الخصال‌، ج‌۲، ص‌۴۲۴؛ مفید، الاختصاص‌، تصحيح و تعليق على‌اكبر غفارى‌، ص‌۱۷۳۔

 طبری، ج 4، ص 427-431۔

 نہج البلاغہ، خطبہ 92۔

 زبیدی، ج3، ص 273۔

طبری، ج‌4، ص‌534۔

 طبری‌، ج‌4، ص‌453۔

 طبری‌، ج‌4، ص‌453۔

 نہج‌البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، خطبہ 174، ص 180۔

 طبری، ج 6، ص 3096؛ بحوالہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 84-85۔

طبری‌، ج‌4، ص ‌451، 544 و ج 5، ص 150؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 82-83 و 108۔ ۔

 طبری‌، ج‌4، ص ‌454۔

 طبری‌، ج‌4، ص ‌507۔

 طبری‌، ج‌4، ص‌511؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔

 شہیدی، علی از زبان علی، ص 104۔

 یعقوبی، ج‌2، ص‌183۔

 طبری‌، ج‌4، ص ‌510؛ شہیدی، علی از زبان علی، ص 108۔

 جوہری، ج3، ص 1152۔

 یعقوبى، ج 2، ص 188؛ خلیفہ، ص 191۔

 تلخیص از: شہیدی، علی از زبان علی، ص 113-121۔

 المعیار و الموازنہ، ص 162؛ بہ نقل شہیدی، علی از زبان علی، ص 122۔

 ابن مزاحم، ص 490۔

 ابن اعثم، ج 3، ص 163۔

شہیدی، علی از زبان علی، ص 129۔

 شہرستانی، الملل و النحل، تخریج: محمد بن فتح اللہ بدران، قاہرہ، الطبعہ الثانیہ، القسم الاول، ص 106-107۔

 شہیدی، علی از زبان علی، ص 132۔

 شہیدی، علی از زبان علی، ص 133-134۔

 جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، قم: دفتر نشر معارف، 1391، ص 54-53۔

 مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، قم، سعید بن جبیر، 1428ہجری۔، صص 27-28۔

 عبد الکریم بن احمد بن طاووس، فرحة الغریٰ، ص 93؛ مجلسی، بحار، ج 42، ص 222؛بحوالۂ مقدسی یداللہ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ؑ، قم: پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1391، ص 239-240۔

 مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ ھ، ص۱۳

 مجلسی، ج 36، ص 5۔

 نہج البلاغہ، نامہ ۴۷، ص ۳۲۰،۳۲۱

 نہج البلاغہ، نامہ ۴۷، ص ۳۲۰،۳۲۱

 ثقی کوفی، الغارات، تعلیقہ علامہ حلی، ۱۳۵۳،‌ ج۲، ص۸۳۵-۸۳۷۔

 حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹

 حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۳۱؛ فرطوسی، تاریخچہ آستان مطهر امام علیؑ، ۱۳۹۳ش، ص۱۵۹-۱۷۹

 نک؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹.

 فرطوسی، تاریخچه آستان مطهر امام علی(ع)، ۱۳۹۳ش، ص۱۵۹-۱۷۹؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹.

 شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۰؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۳۰.

 امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۶، ص۲۱-۲۳۔

مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ ج۳۵، ص۲۳۔

 کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۰۱۔

امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج ۶، ص۲۲۔

 النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۵، پاورقی شماره ۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۳۰۔

 ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۶۔

 صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۴۔

 طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۴۳۔

 مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲

 حسینی، «نخستین مومن و آگاهانه‌ترین ایمان»، ص۴۸۔

 طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱۰۔

 ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۲۸۔

 ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔

 رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶، ص۴۴۔

 طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱؛ حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۳-۶۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۴-۵۰؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۵۳-۱۵۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۹-۱۸۶؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ق، ص۳۰۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳-۵۴۲؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج۱، ص۲۶۲۔