WONDERFUL VIEW INTO THE GRACEFUL LIFE OF IMAM ALI AS
علیؑ امام من است و منم غلام علیؑ
ہزار جان گرامی فدا بہ نام علیؑ
امام علی ؑ اور ناکثین کے درمیان واقع ہونے والی جنگیں
جنگ جمل (ناکثین)
جنگ جمل امام علیؑ کی پہلی جنگ تھی جو آپؑ اور ناکثین کے درمیان واقع ہوئی۔ نکث بمعنی نقض اور توڑنا، اور چونکہ طلحہ و زبیر اور اور ان کے پیروکاروں نے ابتدا میں امام علیؑ کی بیعت کی تھی جو بالآخر انہوں نے توڑ دی چنانچہ انہیں ناکثین اور عہد شکنوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[219] یہ جنگ جمادی الثانی سنہ 36 ہجری میں لڑی گئی۔[220] طلحہ اور زبیر جو قتل عثمان کے بعد ابتدا میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے [221] جب ناکام ہوئے اور خلافت امام علیؑ کو ملی تو انہیں توقع تھی کہ علیؑ کے ساتھ خلافت میں شریک ہو جائیں گے۔ ان دونوں نے آکر آپ سے بصرہ اور کوفہ کی ولایت مانگی، لیکن علیؑ نے انہیں اس کام کے لئے اہل قرار نہیں دیا۔[222] جبکہ وہ دونوں قتل عثمان کے اصل ملزم تھے اور عوام کے درمیان کوئی بھی طلحہ جتنا قتل عثمان کا خواہاں نہ تھا،[223] وہ دونوں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے عائشہ سے جا ملے؛ حالانکہ عائشہ نے عثمان کے محاصرے کے وقت نہ صرف ان کی مدد نہیں کی تھی بلکہ موقف اختیار کیا تھا کہ عثمان کو گھیرنے والے حق طلب ہیں۔ لیکن جب انہیں خبر ملی کہ لوگوں نے علیؑ کی بیعت کی ہے تو کہنے لگیں کہ “عثمان کو ظلم کرکے قتل کیا گیا ہے اور اس کے بعد انہوں نے عثمان کے قتل کے سلسلے میں انصاف مانگنا شروع کیا!۔[224] عائشہ اس سے پیشتر علیؑ کے لئے عداوت یا عدواتیں دل میں رکھے ہوئی تھیں اسی وجہ سے انہوں نے طلحہ اور زبیر کا ساتھ دیا۔[225] چنانچہ ان تین افراد نے تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔[226] اس جنگ میں عائشہ عسکر نامی اونٹ (جمل) پر سوار ہوئی تھیں اسی وجہ سے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا گیا۔[227]
امام علیؑ نے بصرہ پہنچ کر سب سے پہلے عہد شکن باغیوں کو نصیحت کی اور یوں جنگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن باغیوں نے امامؑ کے ایک ساتھی کو قتل کرکے جنگ کا آغاز کیا[228] تاہم زبیر نے جنگ شروع ہونے سے قبل ہی لشکر سے کنارہ کشی اختیار کی جس کا سبب یہ تھا کہ علیؑ نے اسے وہ حدیث یاد دلائی کہ جب رسول اللہؐ نے زبیر سے کہا تھا کہ ایک دن تم علیؑ کے خلاف بغاوت کرو گے۔ زبیر جنگ سے دستبردار ہونے کے بعد بصرہ کے باہر ایک تمیمی مرد عمرو بن جرموز کے ہاتھوں قتل ہوا۔[229] اصحاب جمل نے چند گھنٹوں کی مختصر جنگ میں بڑا جانی نقصان اٹھا کر شکست کھائی[230] اس جنگ میں طلحہ (اپنے لشکر میں شامل مروان) کے ہاتھوں مارا گیا اور عائشہ کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دیا گیا۔[231]
جنگ صفین (قاسطین)
جنگ صفین امام علیؑ اور قاسطین (معاویہ اور اس کی سپاہ)[232] کے درمیان صفر المظفر سنہ 37 ہجری کو شام میں دریائے فرات کے قریب صفین نامی مقام پر لڑی گئی اور اس کا اختتام اُس حَکَمیت پر ہوا جو رمضان سنہ 38 ہجری میں انجام پائی۔[233] حضرت عثمان کو مسلمانوں نے گھیرے میں لیا تو معاویہ ان کی مدد کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ انہیں دمشق منتقل کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ وہاں امور مملکت کی باگ ڈور خود سنبھال لے۔ اس نے قتل عثمان کے بعد شامیوں کے درمیان علیؑ کو ان کے قاتل کے طور پر پہجان کرانے کی کوشش کی۔ امامؑ نے اپنی حکومت کے آغاز پر معاویہ کو خط لکھا اور اس کو بیعت کرنے کا کہا لیکن اس نے حیلوں بہانوں سے کام لیا اور کہا کہ “پہلے عثمان کے ان قاتلوں کو میرے حوالے کریں جو آپ کے پاس موجود ہیں تا کہ میں ان سے قصاص لوں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو میں بیعت کروں گا۔ امامؑ نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی اور اپنا نمائندہ بھیجا اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ معاویہ جنگ چاہتا ہے تو آپ نے اپنا لشکر لے کر شام کی جانب رخ کیا۔ ادھر معاویہ بھی اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا اور دونوں لشکروں کا سامنا صفین کے مقام پر ہوا۔ امام علیؑ کی کوشش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو یہ مسئلہ جنگ پر ختم نہ ہو۔ لہذا آپ نے پھر بھی خطوط روانہ کئے جن سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا اور آخر کار سنہ 36 ہجری میں جنگ کا آغاز ہوا۔[234]
سپاہ علیؑ کا آخری حملہ شروع ہوا اور اگر جاری رہتا تو علوی سپاہ کی کامیابی یقینی تھی لیکن معاویہ نے عمرو بن عاص کے ساتھ مشورہ کرکے ایک مکارانہ چال چلی اور حکم دیا کہ لشکر کے پاس قرآن کے جتنے بھی نسخے ہیں انہيں نیزوں پر اٹھائیں اور سپاہ علیؑ کے سامنے جائيں اور انہيں قرآن کے فیصلے کی طرف بلائیں۔ یہ بہانہ کار گر ہوا اور سپاہ علیؑ میں قاریوں کی جماعت علیؑ کے پاس آئی اور اور کہا: ہمیں کوئی حق نہيں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ لڑیں چنانچہ وہ جو کہتے ہیں وہی ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔علیؑ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ ہاری ہوئی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن بے سود۔[235]
امامؑ نے مجبور ہوکر معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں لکھا: ہم جانتے ہیں کہ تمہارا قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے تاہم ہم قرآن کی حکمیت (یا قرآنی فیصلہ) قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔[236] طے یہ پایا کہ ایک فرد سپاہ شام کی طرف سے آ جائے اور ایک فرد سپاہ عراق کی طرف سے اور وہ دونوں بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس موضوع میں قرآن کا حکم کیا ہے۔ شامیوں نے عمرو بن عاص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور اشعث اور بعد میں خوارج کے مسلک میں شامل ہونے والے کئی دیگر افراد نے ابو موسی اشعری کا نام تجویز کیا۔ امام علیؑ نے عبداللہ بن عباس یا مالک اشتر کے نام تجویز کئے لیکن اشعث اور اس کے گروہ نے کہا کہ چونکہ مالک اشتر جنگ جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور عبداللہ بن عباس کو ہونا ہی نہیں چاہئے اور چونکہ عمرو بن عاص مصر سے ہے اسی لئے دوسرے فریق کا نمائندہ یمنى ہونا چاہئے!۔[237] آخر کار عمرو بن عاص نے ابو موسی اشعری کو دھوکہ دیا اور بظاہر قرآنی حَکَمِیت کو معاویہ کے مفاد میں ختم کردیا۔[238]
جنگ نہروان (مارقین)
جنگ صفین میں حَکَمِیت کے نتیجے میں امامؑ کے بعض ساتھیوں نے احتجاج کیا اور آپ سے کہنے لگے: آپ نے خدا کے کام میں کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ حالانکہ امام علیؑ شروع سے ہی حَکَمِیت کی مخالفت کر رہے تھے اور ان ہی لوگوں نے امامؑ کو اس کام پر مجبور کیا تھا لیکن بہر صورت انہوں نے امامؑ کو کافر قرار دیا اور آپ پر لعن کرنے لگے۔[239]
یہ لوگ خوارج یا مارقین کہلائے جنہوں نے آخر کار لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انہوں نے صحابی رسول خداؐ کے فرزند عبداللہ بن خباب کو قتل کیا اور اس کی بیوی کا پیٹ چیر کر اس میں موجود بچے کو بھی قتل کیا۔[240]] چنانچہ امامؑ نے مجبورا جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے ابتدا میں عبداللہ بن عباس کو بات چیت کی غرض سے ان کے پاس بھیجا اور بات چیت ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے تو اپنی رائے سے دستبردار ہوئے لیکن بہت سے رہ گئے۔ آخر کا نہروان کے مقام پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امامؑ کے لشکر سے 7 یا 9 افراد شہید ہوئے اور خوارج میں سے 9 افراد زندہ بچ گئے۔ [241]
The Battle of Jamal (Camel):
The Battle of Jamal The Battle of Jamal was the first conflict between Imam Ali and the dissenters. Dissenters, meaning violators, broke their allegiance with Imam Ali. Talha, Zubair, and their followers initially pledged allegiance to Imam Ali, which he later revoked. The battle took place in Jamadi Al-Thani, 36 AH.
When Imam Ali reached Basra, he tried to counsel the rebels to avoid war, but they initiated hostilities by killing one of Imam Ali’s companions. Talha, who was implicated in the murder of Caliph Uthman, retreated before the battle started, citing a prophecy about his death. The rebels gathered a force of three thousand and headed towards Basra.
In the ensuing conflict, Talha was killed by Marwan, a member of their army. Aisha was respectfully escorted back to Medina. This battle became known as the Battle of the Camel due to Aisha’s presence on a camel.
The Battle of Siffin (Qasitin):
The Battle of Siffin The Battle of Siffin occurred between Imam Ali and Muawiyah, representing Qasitin (those who deviated from justice). The battle took place near the Euphrates in Siffin in Safar Al-Muzaffar, 37 AH, concluding with an arbitration that established the status quo in Ramadan 38 AH.
Imam Ali sought a peaceful resolution, proposing arbitration to prevent further bloodshed. However, negotiations failed, and the Battle of Siffin commenced in Jamadi Al-Thani, 36 AH.
As the battle unfolded, a cunning plan by Muawiyah involved raising copies of the Quran on spears, prompting a call for arbitration based on the Quran’s judgment. The plan succeeded as some of Imam Ali’s supporters defected, leading to the arbitration.
The Battle of Nahrawan (Kharijites):
The Battle of Nahrawan After the Battle of Siffin, dissidents (Kharijites) arose within Imam Ali’s ranks, challenging his right to accept arbitration. These Kharijites, rejecting Imam Ali’s authority, accused him of deviating from God’s judgment. Initially peaceful, they later initiated violence, resulting in the deaths of prominent figures.
Faced with internal dissent and violence, Imam Ali had no choice but to engage in the Battle of Nahrawan. The Kharijites, known for extremism, targeted anyone disagreeing with their interpretation. The battle ended with casualties on both sides but marked the suppression of the Kharijite rebellion.
:حوالہ جات
ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ۵۹۔
ابن هشام، السیرة النبویة، ج ۴، ص ۳۱۹؛ واقدی، کتاب المغازى، ۱۴۰۹، ج۳، ص۸۲۶ و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، ۱۳۷۴، ج ۱، ص۱۴۱ و ۱۵۳۔
احمدی، «تحلیل روایی – تاریخی پرچمداری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص۳۷۔
ابن شهر آشوب، مناقب، ۳: ۱۴۴۔
ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۲۲۵، ۱۴۲۱ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۴۵، ۱۴۱۱ق۔
بلاذری، ص۱۳۹۔
حلبى، ج 3، ص 30۔
ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۲، ص ۱۲۸-۱۲۹، ۱۴۱۰ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ۳، ص ۱۸۰۲-۱۸۰۳، ۱۴۰۹ق۔
سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، ص۴۵۴، نامہ ۶۴۔
طوسی، تلخیص الشافی، ج3، ص76؛ شہرستانی، ج2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج2، ص 12۔
مجلسی، ج20، ص 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978
مسلم، ج 15، ص 178-179۔
سید جعفر شہیدی، خطبہ 174، ص 180۔
شوشتری، قاموس الرجال، ج۷، ص۴۹۵۔
مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲
مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233
نہج البلاغہ، خطبہ 92۔
نہجالبلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، ص 565۔
:مآخذ
قرآن کریم
ابن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ، دار الاضواء، بیروت
ابن اثیر، اسد الغابہ، تحقیق محمد ابراہیم بنا، دار الشعب، قاہرہ
ابن اثیر، الکامل فى التاریخ، دار صادر، بیروت
امینی، الغدیر، دار الکتاب العربی، بیروت
احمد حنبل شیبانی، مسند احمد بن حنبل، دار احیاء التراث العربی، بیروت
ابن ہشام، السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، مکتبہ محمد علی صبیح، قاہرہ
ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت
ابن بابویہ، کتاب الخصال، علی اکبر غفاری، جامع مدرسین، قم
امین، سیرہ معصومان، ترجمہ علی حجتی، انتشارات سروش، تہران
احمد بن عبداللہ طبری، ذخائر العقبی، مکتبہ القدسی، قاہرہ
ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، مکتبہ اسلامیہ، تہران
ابن ندیم بغدادی ، فہرست ابن ندیم، تحقیق رضا تجدد
1 comment