IMAM’s VALOR: AMAZING COURAGE AND LOYALTY WITH ISLAM💚
حضرت علیؑ کی غزوات میں شرکت
امام علیؑ نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔[161] آپ بہت سی جنگوں میں سپاہ اسلام کے اصلی سپہ سالار رہے[162] اور جیسے جنگ میں بہت مسلمان فرار اختیار کرتے تھے وہ کبھی فرار نہیں ہوئے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے ساتھ رہے اور جنگ کرتے رہے۔[163]
جنگ بدر
جنگ بدر یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سنہ 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔[164] اس جنگ میں ابو جہل،[165] عتبہ بن ربیعہ[166] جیسے قریش کے بزرگ قتل ہوئے۔
حضرت علیؑ نے ولید بن عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔[167] اس جنگ میں نوفل بن خویلد جس پر آنحضرت نے نفرین کی تھی، حضرت کے ہاتھوں مارا گیا۔[168] ان کے علاوہ دیگر بیس افراد آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں حنظلہ بن ابو سفیان و عاص بن سعید شامل ہیں۔[169] بعد امام علی نے معاویہ کو ایک خط میں لکھا: ابھی بھی وہ شمشیر جس سے تمہارے جد (عتبہ ہندہ کا باپ)، ماموں (ولید عتبہ کا بیٹا) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کو قتل کیا تھا، میرے پاس ہے۔[170]
جنگ احد
جنگ احد میں مشرکین کے غلبہ کے بعد بہت سے مسلمانوں نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی اور پیغمبر ؐ کو تنہا چھوڑ دیا۔ حضرت علی و بعض دیگر افراد موجود رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔[171] خود علیؑ نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے مہاجرین و انصار نے اپنے گھروں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ لیکن میں نے جبکہ میرے جسم پر ستر زخم تھے، رسول خدا ؐ کا دفاع کیا۔[172]
شیعہ[173] و اہل سنت[174] مصادر کے مطابق، امام علیؑ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا: یہ ایثار اور قربانی کی انتہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔ رسول خداؐ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّہ ُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہ(وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں) اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی: لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علیؑ۔ (ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علیؑ کے سوا کوئی جوان نہیں ہے)۔
جنگ خندق (احزاب)
جنگ خندق میں رسول اللہؐ نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔[175] کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے؛ بالآخر لشکر کفار سے عمرو بن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گذر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علیؑ نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپؐ نے اذن دے دیا۔ علیؑ نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔[176] جب علیؑ عمرو کا سر لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔ (ترجمہ: روز خندق علیؑ کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے)۔[177]
جنگ خیبر
جنگ خیبر جمادی الاولی سنہ 7 ہجری میں واقع ہوئی جب رسول اللہؐ نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔[178]اور جب حضرت ابوبکر اور عمر جیسے متعدد افراد یہودی قلعوں کی تسخیر کے مشن میں ناکام رہے تو رسول خداؐ نے فرمایا: لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ أو يحبہ اللہ ورسولہ میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔[179] صبح کے وقت رسول اللہؐ نے علیؑ کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کیا۔ شیخ مفید کے نقل کے مطابق، علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔[180]
فتح مکہ
رسول خداؐ ماہ مبارک رمضان سنہ 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا لیکن سعد نے جنگ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبرؐ اسلام کو جب انکا پتہ چلا تو آپ نے امام علیؑ کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپؐ کی ہدایت پر علیؑ نے آپؐ کے دوش پر کھڑے ہو کر بتوں کو توڑا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔[181]
جنگ حنین
جنگ حنین سنہ 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس میں مہاجرین کا پرچم امام علیؑ کے ہاتھوں میں تھا۔[182] اس جنگ میں مشرکین کے اچانک حملے کے بعد مسلمانوں نے فرار اختیار کی۔ صرف و جند دیگر افراد ثابت قدم رہے اور انہوں نے آنحضرتﷺ کا دفاع کیا۔ غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔[183]
جنگ تبوک
وہ واحد غزوہ جس میں امام علیؑ نے رسول اللہؐ کے ساتھ شرکت نہیں کی وہ غزوہ تبوک تھا۔ امام علیؑ رسول اللہؐ کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تاکہ آپؐ کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔ امام علیؑ کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد منافقین نے امام علیؑ کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور امام علیؑ نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔ یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہؐ نے حدیث منزلت فرمائی کہ: “میرے بھائی علیؑ! مدینہ لوٹو، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لئے تمہارےؑ اور میرےﷺ بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیتؑ اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا”۔[184]
سرایا
سریہ امام علی بن ابی طالبؑ فدک، بنی سعد سے مقابلہ شعبان سنہ 6 ہجری[185]
سریہ امام علی بن أبی طالبؑ قبیلہ بنی طی میں بت خانہ فلس کی تخریب کے لئے۔ ربیع الثانی سنہ 9 ہجری[186]
سریہ امام علی بن أبی طالبؑ یمن رمضان سنہ 10 ہجری[187]
یمن کی ذمہ داری
آنحضرتﷺ نے فتح مکہ اور جنگ حنین میں کامیابی کے بعد سنہ 8 ہجری میں اپنی دعوت میں وسعت دی۔ اسی سلسلہ میں معاذ بن جبل کو یمن بھیجا۔ وہ بعض مسائل کے حل میں ناکام رہے اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے خالد بن ولید کو بھیجا۔ ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور ۶ کے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ تب آنحضرتﷺ نے امام علیؑ کو بلایا اور انہیں اپنے خط کے ہمراہ یمن روانہ کیا۔ امامؑ نے اہل یمن کو آنحضرتﷺ کا خط پڑھ کر سنایا اور انہیں توحید کی دعوت دی۔ امامؑ کی کوششوں سے قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔ امامؑ نے ان کے اسلام لانے کی خبر آنحضرت ؐ کو بھیجی۔ آپﷺ خوش ہوئے اور ہمدانیوں کو دعائیں دی۔[188] ایک دوسری گزارش میں قبیلہ مذحج کے ساتھ امام علیؑ کی جنگ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گزارش کے مطابق، امامؑ ان کی سر زمین کی طرف گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے تو آپؑ نے ان سے جنگ کی اور ان کے فرار اختیار کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دی، غنائم جنگ کو جمع کیا اور نجران کے صدقات کے ساتھ حج کے موسم میں سب آنحضرتﷺ کے حوالے کیا۔[189] آنحضرتﷺ نے یمن کی قضاوت بھی امامؑ کے حوالے کی اور اس میں استواری کے لئے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تاریخی مصادر میں وہاں قضاوت کے بعض نمونے ذکر ہوئے ہیں۔[190]
Imam Ali’s Participation in Battles
Introduction Imam Ali, the beloved companion of Prophet Muhammad, played a crucial role in various battles, showcasing his unwavering commitment to Islam.
1. Battle of Badr In this first major encounter, Ali fought alongside the Prophet against the Quraysh, contributing to the victory that marked a turning point in Islamic history.
2. Battle of Uhud Ali’s steadfastness in the face of adversity during the Battle of Uhud exemplifies his loyalty. Despite many Muslims fleeing, he remained by the Prophet’s side.
3. Battle of Khandaq (Trench) During this battle, Ali’s heroic act of single combat against Amr ibn Abd Wudd displayed his exceptional bravery, earning admiration from Prophet Muhammad.
4. Conquest of Mecca In the conquest of Mecca, Ali carried the Prophet’s banner, symbolizing the triumph of Islam. His pivotal role in breaking the idols marked a significant moment.
5. Battle of Hunayn Ali’s leadership in the Battle of Hunayn proved vital in overcoming challenges, showcasing his military prowess and dedication to Islam.
6. Battle of Tabuk Although not directly involved due to the Prophet’s instructions, Ali’s role in maintaining order in Medina during the Battle of Tabuk demonstrated his strategic importance.
Conclusion
Imam Ali’s contributions in these battles defended Islam and set a standard for courage, loyalty, and commitment to the Prophet’s mission.
The inspiring journey of Imam Ali’s courage, loyalty, and commitment to fulfilling the Prophet’s mission. Uncover the profound standards that shaped his unwavering dedication. Discover a legacy of bravery and loyalty that echoes throughout history. Join us in celebrating the timeless virtues of Imam Ali.
حوالہ جات
مفید، الارشاد، ۱: ۱۵۔
ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15۔
مفید، ارشاد، ج 1، ص2۔
مجلسی، ج 19، ص 57۔
قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، ۸: ۶۸۔
مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲: ۱۷۶۰۔
شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱،
مرعشی نجفی، موسوعة الإمامة، ۱۴۳۰ق، ج۶، ص۱۹۷و ۱۹۸؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ أمیرالمؤمنین ع، ۱۳۸۹ش، ج۱۴،
8۔
مسلم، ج 15، ص 178-179۔
مفید، ارشاد، 590۔
حلبى، ج 3، ص 30۔
آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۵۹
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۲۔
مفید، ارشاد، ج 1، ص 156؛ ابن ہشام، ج 4، ص 163۔
واقدی، المغازى، ۱۴۰۹، ج۲ ص۵۶۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۰، ج۲، ص۶۹؛ یاقوت حموى، معجم البلدان۱۹۹۵، ج۴، ص۲۳۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۲، ص ۶۴۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۰۹۔
آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۶۱، ص ۵۷۶۔
مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۶-۱۷۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۹۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۴۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۷-۱۸۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۸۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۸-۲۷۔
ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۰۔
پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷: ۳۸۱-۳۸۷۔
پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷: ۳۸۷-۳۹۸۔
مآخذ
قرآن کریم
ابن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ، دار الاضواء، بیروت
ابن اثیر، اسد الغابہ، تحقیق محمد ابراہیم بنا، دار الشعب، قاہرہ
ابن اثیر، الکامل فى التاریخ، دار صادر، بیروت
امینی، الغدیر، دار الکتاب العربی، بیروت
احمد حنبل شیبانی، مسند احمد بن حنبل، دار احیاء التراث العربی، بیروت
ابن ہشام، السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، مکتبہ محمد علی صبیح، قاہرہ
ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت
ابن بابویہ، کتاب الخصال، علی اکبر غفاری، جامع مدرسین، قم
امین، سیرہ معصومان، ترجمہ علی حجتی، انتشارات سروش، تہران
احمد بن عبداللہ طبری، ذخائر العقبی، مکتبہ القدسی، قاہرہ
ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، مکتبہ اسلامیہ، تہران
ابن ندیم بغدادی ، فہرست ابن ندیم، تحقیق رضا تجدد
ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، مکتبہ حیدریہ، نجف
ابن ابن الحدید، شرح البلاغہ، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، دار احیاء الکتب العربیہ، قاہرہ
ابن فقیہ ہمدانی، اخبار البلدان، تحقیق یوسف الہادی، عالم الکتب، بیروت
ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، تحقیق ارموی
اسکافی، المعیار و الموازنۃ فی فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، محمد باقر محمودی، بیروت
ابن اعثم، الفتوح، دار الندوہ، بیروت
ابن مزاحم، وقعۃ صفین، انتشارات بصیرتی، قم
آبی ابوسعد، من نثر الدر، وزاۃ الثقافہ سوریہ، دمشق
اشعری، مقالات الاسلامیین، دارالنشر، بیروت
ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق کاظم مظفر، مکتبہ حیدریہ، نجف
ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تحقیق سامی الغریری، در الحدیث، قم
ابن سعد، طبقات الکبری، دار صادر، بیروت
ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ والسیاسۃ، تحقیق علی شیری، انتشارات شریف رضی، قم
الامین، السید حسن، اعیان الشیعۃ، ج 2، حققہ و خرجہ: السید حسن الامین، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق/1998 ء۔
بحرانی، غایۃ المرام، تحقیق سید علی عاشور، موسسہ تاریخ العربی، بیروت
برقی، رجال برقی، تحقیق محدّث ارموی، دانشگاہ تہران، تہران
بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ اعلمی، بیروت
پیشوایی، سیرہ پیشوایان، انتشارات توحید، قم
جوہری، الصحاح، تحقیق احمد عبد الغفور، دارالعلم للملایین، بیروت
جعفریان، تاریخ خلفاء، انتشارات دلیل ما، قم
حاکم نیشابوری، المستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمن مرعشلی
حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، تحقیق محمد باقر محمودی، وزارت ارشاد اسلامی، تہران
حلی، تذکرہ الفقہاء، موسسہ آل البیت، قم
حموینی جوینی، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ محمودی، بیروت
حلبی، السیرہ الحلبیہ، دار المعرفہ، بیروت
حویزی، تفسیر نور الثقلین، تحقیق رسولی محلاتی، موسسہ اسماعیلیان، قم
خليفۃ بن خياط العصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، دار الفکر بیروت
شریف الرضی، محمد بن حسین، خصائص الآئمہ ؑ(خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام)، محقق و مصحح: امینی، محمد ہادی، آستان قدس رضوی، مشہد، چاپ اول، 1406 ہجری شمسی۔
ابن بطریق، یحیی بن حسن، عمدۃ عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار، جامعہ مدرسین، قم، چاپ اول، 1407ہجری۔
فیروز آبادى، سید مرتضى، فضائل پنج تن ؑ در صحاح ششگانہ اہل سنت، ترجمہ: ساعدى، محمد باقر، نشر فیروز آبادى، قم، چاپ اول، 1374 ہجری۔
ذاکری، سیمای کارگزاران امام علی ؑ، انتشارات دفتر تبلیغات، قم
ری شہری، موسوعہ الامام علی ابن ابی طالب، دار الحدیث، قم
رشید رضا، تفسیر المنار، دار المعرفہ، بیروت
زمخشری، الكشاف عن حقائق التنزيل، مکتبہ البابی حلبی، قاہرہ
زبیدی، تاج العروس، تحقیق علی شیری، دار الفکر، بیروت
زرکلی، الاعلام، دار العلم للملایین، بیروت
سید بن طاوس، إقبال الاعمال، تحقیق جواد قیومی، مکتب اعلام الاسلامی
سید قطب، فی ظلال القرآن، دار الشروق، بیروت
سیوطی، الدر المنثور، دار المعرفہ، بیروت
سیوطی، الاتقان في علوم القرآن، تحقیق سعید مندوب، دار الفکر، بیروت
سلیمان بن عبد الوہاب، فصل الخطاب، نخبۃ الاخبار، بمبئی
شہرستانی، الملل و النحل، تحقیق محمد سید کیلانی، دار المعرفہ، بیروت
شوشتری، احقاق الحق مکتبہ آیت اللہ مرعشی، قم
شوشتری، قاموس الرجال، مرکز نشر کتاب، تہران
شوشتری، مجالس المؤمنین، کتاب فروشی اسلامیہ، تہران
صدوق، الہدایہ، الہادی، قم
صدوق، عیون اخبار الرضا، انتشارات اعلمی، تہران
صدوق، کمال الدین ، تحقیق علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم
ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، موسسہ آموزشی پژوہشی مذاہب اسلامی، قم
طبری، تاریخ طبری، موسسہ اعلمی، بیروت
طبرسی، احتجاج، نشر مرتضی، مشہد
طبرسی، مجمع البیان، موسسہ اعلمی، بیروت
طبرسی، جوامع الجامع، تحقیق موسسہ نشر اسلامی، جامعہ مدرسین، قم
طباطبایی، المیزان، جامعہ مدرسین، قم
طوسی، مصباح المتہجد، موسسہ فقہ الشیعہ، بیروت
طوسی، تلخیص الشافی، تحقیق سید حسین بحر العلوم، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی، دار الکتاب، قم
فیض کاشانی، الحق المبین، تصحیح ارموی، سازمان چاپ دانشگاہ
فیض کاشانی، تفسیر الصافى، موسسہ الہادی، قم
فخر رازی، تفسیر الرازی، دار احیاء التراث، بیروت
قاضی قضاعی، دستور معالم الحکم، ترجمہ فیروز حریرچی، دانشکدہ علوم حدیث، قم
قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، موسسہ امام مہدی (عج)، قم
قطب راوندی، منہاج البراعہ، تحقیق آیت اللہ مرعشی، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، قم
قرطبی، تفسیر القرطبی، تحقیق احمد عبد العلیم، دار احیاء التراث، بیروت
قندوزی، ینابیع المودۃ، تحقیق سید علی جمال اشرف، دار الاسوہ، تہران
قمی، سفینۃ البحار، کتابخانہ سنائی، تہران
کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار الکتب، تہران
کمپانی، علی کیست، دار الکتب اسلامیہ، تہران
گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، دار احیاء التراث، بیروت
متقی ہندی، کنز العمال، موسسہ الرسالہ، بیروت
مجلہ پرسمان، اسفند 1380، پیش شمارہ 7
محمودی، نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، موسسہ اعلمی، بیروت
مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب، دار الاضواء، بیروت
مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار الفکر بیروت
مجلسی، مرآۃ العقول، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفاء، بیروت
مسعودی، مروج الذہب و معادن الجواہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، انتشارات علمی و فرہنگی، تہران
مفید، جمل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، نشر نی، تہران
مفید، امالی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار المفید، بیروت
مفید، الاختصاص، تحقیق علی اکبر غفاری، دار المفید، بیروت
مفید، ارشاد، موسسہ آل البیت، قم
نوری، مستدرک الوسائل، موسسہ آل البیت، بیروت
نہج البلاغہ، صبحی صالح
نہج البلاغہ، ترجمہ دشتی، موسسہ نشر شہر، تہران
واقدی، المغازی، عالم الکتب، بیروت
ہیثمی، الصواعق المحرقہ المکتبۃ العصریۃ، بیروت
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ ابراہیم آیتی، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، تہران
أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـ ابن شاہين (المتوفى: 385 ھ)، فضائل فاطمہ بنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم تحقيق: بدر البدر، الناشر: دار ابن الأثير – الكويت (ضمن مجموع فيہ من مصنفات ابن شاہين)، الطبعہ: الأولى 1415 ھ- 1994 ء، عدد الأجزاء
نسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلاميہ – حلب، الطبعہ: الثانيہ، 1406 – 1986.
أبو عبد اللہ الحاكم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحكم الضبي الطہماني نيشاپوري معروف بابن البيع (المتوفى: 405 ھ)، مستدرك على الصحيحين ج2 ص181 تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلميہ – بيروت، الطبعہ: الأولى، 1411 – 1990، عدد الأجزاء: 4 .
سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360 ھ)،المعجم الكبير ج4 ص34، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبہ ابن تيميہ – القاہرة، الطبعہ: الثانيہ، عدد الأجزاء:25.
Post Comment