×

ELIF SHAFAK: The Forty Rules of Love in URDU

ELIF SHAFAK: The Forty Rules of Love in URDU

چالیس چراغ عشق کے (از شمس تبریزی)

My Favourite Novel
Blend and Reflections of The Components of Nature And Love

Within “The Forty Rules of Cherish,” author Elif Shafak creates a story that intertwines two unmistakable stories over centuries and societies. The novel takes after the travel of Ella. An advanced housewife, who gets excited by the book “Sweet Sacrilege,” which dives into the life of Shams Tabrizi. A 13th-century otherworldly instructor to Rumi. Through the pages of “Sweet Disrespect,” perusers are presented to Shams’s Forty Adore Rules, blended with reflections on the components of nature.

Each chapter unfurls a story comparing the quintessence of water, discuss, soil, fire, and void, weaving a story wealthy in subjects of cherish, otherworldly existence, and the interest of internal truth. At its center, the novel investigates the significant association between cherish and the human soul. Encouraging perusers to take after the manages of their hearts. 

Inspired by her background in Gender and Women’s Studies. Shafak delves into the profound story of Maulana Jalal-Ud-Din, renowned as Rumi. His spiritual companion, Shams Tabrizi. Released in March 2009. The narrative unfolds the transformative power of love as Shams guides a scholar on a journey from intellect to mysticism. With over 750,000 copies sold in Turkey and France. The book has garnered widespread acclaim for its exploration of spiritual growth and the impact of love on one’s soul.

چالیس چراغ عشق” ایک شہرت حاصل کرنے والا ناول ہے جس کی مصنفہ ترک ناول نگار ایلف شفق ہے۔ یہ کہانی جلال الدین رومی اور شمس تبریز کی دوستی پر مبنی ہے. جو ترکی، انگریزی، اردو اور عربی زبانوں میں دستیاب ہے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ “چالیس چراغ عشق کے” کے نام سے معروف ہے، جو ہما انور نے ترجمہ کیا ہے۔

داستان چالیس چراغ عشق میں جلال الدین رومی اور شمس تبریز کی دوستی اور ان کی محبت پر مرکوز ہے۔ یہ ناول ترکی میں ساڑھے سات لاکھ کے قریب شائع ہوا. اس نے ترکی کی فہرست میں اہمیت حاصل کی ہے۔

“چالیس چراغ عشق” ایلف شفق کی معروفیت کا باعث ہے. جس نے اس ناول میں مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز کی دوستی کو خوبصورتی سے ظاہر کیا ہے۔ یہ ناول شمس تبریزی کے زبانی چالیس اصولوں پر مبنی ہے. جو انسانیت اور محبت کی گہرائیوں کو سمجھانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

“چالیس چراغ عشق” ایک اہم ادبی اثر ہے. جو مختلف زبانوں میں پڑھنے والوں کو مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔

عشق کے چالیس نرالے اصول

ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔

– سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے دماغ کا نہیں۔ اپنے دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ، عقل کو نہیں۔ اپنے نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے دل کی مدد لو کیونکہ تمہاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و -دیں، بتکدہِ تصورات

– قرآن پڑھنے والا ہر شخص، قرآن کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے۔ قرآن کی فہم کے چار درجات ہیں۔ پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کیے ہوئے ہے۔ دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے۔ تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے۔ اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان ان کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں۔ علما و فقہا جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں، یہ پہلے درجے پر ہیں۔ دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے، تیسرا درجہ اولیاء کا ہے۔ چوتھا درجہ صرف انبیا مرسلین اور ان کے ربانی وارثین کا ہے۔ پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے۔ خدا بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں۔ اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے

تم کائنات کی ہر شے اور ہرشخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد، مندر یا کسی گرجے تک محدود نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تمہاری تسلی نہ ہو تو خدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈھو

دل اور عقل، دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل لوگوں کو کسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے اور کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی، لیکن دل ہر بندھن سے آزاد ہوکر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ لیکن دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ، ہمت کرو اور ڈوب جاؤ کیفیت میں۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھرجانے اور فنا ہوجانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ اور خزانے بھی تو ویرانوں میں ملبے تلے ملتے ہیں۔ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے

دنیا کے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معانی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خود کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو الفاظ بیان اور زبان و اظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہو سکے، اس کو صرف خاموشی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے

تنہائی اور خلوت ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب ہم تنہا اور اکیلے ہوتے ہیں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ہم سیدھے رستے پر ہیں۔ لیکن خلوت یہی ہے کہ آدمی تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہ ہو۔ بہتر ہے کہ ہماری تنہائی کسی ایسے شخص کے دم قدم سے آباد ہو جو ہمارے لیے ایک بہترین آئینے کی حیثیت رکھتا ہو۔ یاد رکھو کہ صرف کسی دوسرے انسان کے دل میں ہی تم اپنا درست عکس دیکھ سکتے ہو اور اور تمہاری شخصیت میں خدا کے جس مخصوص جلوے کا ظہور ہورہا ہے، وہ صرف کسی دوسرے انسان کے آئینہِ قلب میں تمہیں دکھائی دے گا

زندگی میں کچھ بھی ہوجائے، زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ لگنے لگے، مایوس کبھی مت ہونا۔ یقین رکھو کہ جب ہر دروازہ بند ہوجائے تب بھی خداوندِ کریم اپنے بندے کے لیے کوئی نہ کوئی نئی راہ ضرور کھول دیتا ہے۔ ہر حال میں شُکر کرو۔ جب سب کچھ اچھا جارہا ہو، اس وقت شکر کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک صوفی نہ صرف ان باتوں پر شکر گزار ہوتا ہے جن میں اس کے ساتھ عطا اور بخشش کا معاملہ گذرے، بلکہ ان تمام باتوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے جن سے اسے محروم رکھا گیا۔ عطا ہو یا منع، ہر حال میں شُکر

صبر اس بات کانام نہیں ہے کہ انسان عضوِ معطل ہوکر بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گذرتا رہے۔ بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگاہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسا رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمہیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گُھپ اندھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبحِ صادق کا اجالا بھی دکھائی دے۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پر نظر ڈالنے سے قاصر رہ جائے۔ عاشقانِ الٰہی صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہِ کامل میں تبدیل ہونے کے لیے کچھ وقت ضرور گذارنا پڑتا ہے

-مشرق، مغرب، شمال ، جنوب۔۔۔ان سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تمہارے سفر کی سمت کوئی بھی ہو، بس یہ دھیان ضرور رہے کہ ہر سفر، ذات کا داخلی سفر ضرور بنے۔ اگر تم اپنی ذات کے اندرون میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا باطنی سفر کرو تو تمہارے ساتھ یہ پوری کائنات اور جو کچھ اس سے ماوراء ہے، وہ بھی شریکِ سفر ہوجاتے ہیں

جس طرح ایک ماں کو بچے کی پیدائش کے لیے درد و کرب کے مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے، اسی طرح ایک نئی شخصیت کو جنم دینے کے لیے تکالیف سے ضرور اٹھانی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک دن کو اپنی روشنی پوری شدت کے ساتھ بکھیرنے کے لیے، شدیدگرمی اور حدت برداشت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح محبت بھی دکھ اور درد کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی

محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو، تمہارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گذرنا شروع ہوجاتا ہے

آسمان پر شائد اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمہیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کے لیے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تمہیں تمہاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفا ف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چِھن کر تم تک پہنچ سکے

زندگی میں جو بھی تبدیلی تمہارے راستے میں آئے، اس کے استقبال کے لیے تیار رہو، اس کی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بناسکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آ رہے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمہارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟

ہر انسان ایک تشنہءِ تکمیل فن پارہ ہے۔جس کی تکمیل کے لیے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے ۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے

ایک بلند و برتر ذات اور ہر طرح کے نقص سے پاک خدا سے محبت کرنا بظاہر تو آسان سی بات معلوم ہوتی ہے۔، لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ انسان اپنے ابنائے جنس سے محبت کرے جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو کہ انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی طور پر محبت کرسکیں اور اس کو جان پائیں

اصل ناپاکی تو اندر کی ناپاکی ہے۔ باقی سب تو آسانی سے دُھل جاتا ہے۔ گرد و غبار کی بس ایک ہی قسم ہے جو پاکیزہ پانی سے صاف نہیں ہوپاتی اور وہ ہے نفرت اور تعصب کے دھبے، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا سے اور روزے رکھنے سے اپنے بدن کا تزکیہ تو حاصل کرسکتے ہو، لیکن قلب کا تزکیہ صرف محبت سے ہی ہوگا۔

پوری کی پوری کائنات ایک انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمہارے ارد گرد جو کچھ تمہیں دکھائی دیتا ہے، تمام چیزیں خواہ تمہیں پسند ہوں یا ناپسن، تمام لوگ خواہ تم ان کیلئےرغبت رمحسوس کرتے ہو یا کراہت، یہ سب کے سب تمہارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے۔ چنانچہ، شیطان کو باہر مت دیکھو، بلکہ اپنے اندر تلاش کرو۔ شیطان کو ئی ایسی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہوتی ہے ، بلکہ تمہارے اندر سے ابھرنے والی ایک معمولی سی آواز کا نام ہے۔ اگر تم پوری محنت اور دیانت سے کبھی اپنی ذات کے روشن اور تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تم پر ایک عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو جان لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو بھی جان لیتا ہے

اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ اپنے برتاؤ کو اور رویے کو تبدیل کر دیں، تو اس کے لیے پہلے تمہیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے اور پوری طرح محبت کرنا نہیں سیکھتے، بہت مشکل ہے کہ تمہیں محبت نصیب ہو۔ اورجب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اُس کانٹے کے لیے بھی شکر گزار رہو جو تمہارے راستے میں پھینکا جائے۔ کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم پر عنقریب پھول بھی نچھاور ہوں گے

اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا، بلکہ اپنی توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہی تمہاری زمہ داری ہے اور یہی سب سےمشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا، تو پھر اس کے بعد ہر شے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خودبخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو، بلکہ خود ایک لہر بن جاؤ جس کا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے

اُس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں۔ کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا تو کہ سب لوگ ایک جیسے ہوجائیں، تو وہ انکو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے

جب اس کا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اس کے لیے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اس کے لیے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔ صوفی لوگوں کو ان کے حلئے اور ان کی وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب ایک صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے اور ایک تیسری آنکھ سے(جو اس کے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔

زندگی تو ایک ادھار کی مانند ناپائیدار ہے اور اصل حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہوتے ہیں یا بے قدری سے انھیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہا پسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں

پروردگار کی سلطنت میں انسان کو بہت خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا ، ” اور میں نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا”۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اس کا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اس کے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اس کے ساتھ جئیں۔

جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہءِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگرے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بد تر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور برا کام سرزد ہو گیا ہے۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں۔ اور کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے ساتھ قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔

کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھ اس کی برائی مت کرو خواہ ایک بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل آتے ہیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ ایک لامحدود وسعت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی اورکسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔

یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تم پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کے لیے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اس کے کہ تم اس کے لیے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اس کے لیے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہو گئے۔ ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion)

ہے ، ایک سراب ہے۔ دنیا ایک خطِ مستقیم کی شکل مین وقت کے دھارے میں سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہءِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہءِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے اور اس کے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے، لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو اس کا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔

سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائی جائے اور ہر سمت سے اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا۔ اورکوئی اس کا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ “غیر ” ہو بھی کیسےسکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟

اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی۔ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کے لیے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لیے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں، ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں، نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ تمام انسانیت اس میں سما سکے اور اس کے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔

کوئی امام، کوئی پادری، کوئی ربی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی تمہارے اور تمہارے رب کے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔ حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں ۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو، لیکن انکو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لیے سود مند نہیں ۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو اپنا مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو، لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔

اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن اسے یہیں چھوڑنا پڑجاتا ہے، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم ایک برتن کی طرح ہیں۔ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں، لیکن اس کا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اس کے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا ، بلکہ یہی خالی پن کا شعور ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔

سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے۔ بلکہ یہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا میں ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا-

اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانی اور ہمواریت ہمیں آگے لیکر نہیں جاتی، بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لیکر جاتا ہے۔ اور دنیامین جتنے بھی متضاد امور ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ اور ایک کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان ایک تدریجی سفر ہے جس کے لیے اس کے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جاپہنچے۔

دنیا عمل اور اس کے رد عمل کے اصول پر قائم ہے۔ نیکی کا ایک قطرہ یا برائی کا ایک ذرہ بھی اپنا رد عمل یا نتیجہ پیدا کیے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکا دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ ۔ اگر کوئی تمہارے لیے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی خیر الماکرین ہے اور سب سےاچھامنصوبہ ساز ہے۔ ایک پتا بھی اس کے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی کے ساتھ اور پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہت خوبصورت طریقے سے کرتا ہے۔

خدا بہت باریک بین اور بڑا ہی کاریگر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پزیر ہوتی ہے۔، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے۔ اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناء کے، سبھی کے لیے بالکل ٹھیک اور درست طور پر کام کرتی ہے۔ ہر ایک کے لیے محبت اور موت کا ایک لمحہ مقرر ہے۔

کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ” کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کے لیے تیار ہوں؟”۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گذرے ہوئے دن کے مساوی گذرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے۔ اور نیا جنم لینے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔موت سے پہلے مرجانا۔

جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن اس کا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہوتا ہے، اس کی جگہ لینے کے لیے ایک نیا شخص پیدا کر دیا جاتا ہے۔ اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔۔۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، نہ ہی کوئی مخصوص تعریف (Definition) ۔ یہ تو ایک سادہ اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات بھی ہے اور آتش کی روح بھی ہے۔ جب آتش آب سے محبت کرتی ہے، تو کائنات ایک مختلف روپ اور نئےانداز میں ظہور پزیر ہوجاتی ہے۔

References

  1.  “Our Compass” Archived 2019-08-03 at the Wayback Machine, “International Herald Tribune”, November 27, 2013
  2.  “Looking for God: Following the Path of Love”, “alif. id”, October 13, 2019
  3.  “Books of the week: From Stephen King’s The Institute to Margaret Atwood’s The Testaments, our picks”,”www.firstpost.com”, September 16, 2019
  4.  Safak, Elif; Chancy, Myriam J. A. (2003). “Migrations: A Meridians Interview with Elif Shafak”Meridians: Feminism, Race, Transnationalism4 (1): 55–85. doi:10.1353/mer.2004.0006ISSN 1547-8424.
  5.  “Analysis: The Forty Rules of Love” Archived 2019-08-03 at the Wayback Machine, “Analysis of Love”, 2010
  6.  “The Forty Rules of Love – review” Archived 2016-09-13 at the Wayback Machine, “The Guardian”, December 5, 2014
  7. Rashid, Yamna.“The Forty Rules of Love taught me what I know now, it’s been my motivation, and inspiration and has helped me become a better person and it holds a special place in my heart”, “SHIFA KHAN (FUTURE BEST TIMESSELLER”, June 1, 2017
  8.  Kazim, Maisam. “Overview of Forty Rules of Love”, “Pamir Times”, March 3, 2018
  9.  “Forty Rules Of Love by ELIF SHAFAK”, , November 29, 2016
  10.  Jump up to:a b “Elif Shafak” Archived 2018-08-22 at the Wayback Machine, “Literary Festivals UK”,
  11.  Jump up to:a b

1 comment

comments user
Habiba khan

Good👍