“ہجرت نبویﷺ : مکہ میں مشکلات اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع”
خلاصہ
مولانا شبلی نعمانی کا شمار اُردو ادب کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے ۔ وہ مشہور محقق، سیرت نگار اور شاعر تھے سبق ہجرت نبوی ان کی کتاب “سیرت النبی ” سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے دوران تبلیغ مکہ میں پیش آنے والی مشکلات کا تذکرہ کیا ہے اور ہجرت کے اسباب و واقعات بیان کیے ہیں۔ نبوت کا تیر ہواں سال شروع ہوا تو اکثر صحابہ کرام مدینہ پہنچ چکے تھے۔ تبلیغ اسلام کے لیے مکہ میں پیش آنے والی مشکلات اور اہل مکہ کی سختیاں بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنالیا حالانکہ قریش مکہ نے مال و اسباب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس امانت کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ خداوند کریم کی طرف سے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے۔ آج رات تم میرے بستر پر سو جانا اور کل صبح امانتیں واپس کر کے مدینہ آجانا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سر آنکھوں پر لیا۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا لیکن قدرت نے ان کو بے خبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سوتا چھوڑ کر گھر سے نکلے اور کعبہ کو دیکھ کر فرمایا اللہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے کو رہنے نہیں دیتے “حضرت ابو بک رضی اللہ کو ساتھ ! لے کر غار ثور میں پناہ لی۔ صبح قریش کی آنکھیں کھلیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو بستر پر پا کر بہت برہم ہوئے اور کچھ دیر حضرت علی علیہ السلام کو حرم میں محبوس رکھا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلے۔ دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علی و آلہ وسلم اور حضرت ابو بکر عنہ غار میں تھے۔ حضرت ابو بکر کا بیٹا عبد اللہ آکر مکہ والوں کی منصوبہ بندی سے آگاہ کرتارہا۔ حضرت ابو بکر کا غلام روزانہ شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ دے جاتا جبکہ ابن ہشام کے مطابق حضرت ابو بکر تعالی کی بیٹی اسماء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانا دے کر آتیں۔ کفار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ڈھونڈتے ہوئے غار تک آپہنچے۔ حضرت ابو بکر پریشان ہوئے۔ فورا آیت نازل ہوئی اور آپ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو بکر سے کہا۔ “گھبراؤ نہیں بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے”۔ قریش نے اشتہار دے دیا کہ جو کوئی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر کو گرفتار کر کے لائے گا اسے ایک خون بہا کے برابر یعنی سو اونٹ دیے جائیں گے۔ سراقہ بن حجثم انعام کے لالچ میں نکلا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غار سے نکلتے دیکھ لیا۔ اس نے ان پر حملہ کرنے کا شگون معلوم کرنے کے لیے فال نکالی جو صحیح نہ نکلی لیکن پھر بھی انعام کے لالچ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا لیکن اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ اس واقعہ نے اس کی ہمت پست کر دی۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر امن کی تحریر لکھ دینے کی درخواست کی۔ آپ مصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول کرلی۔ حضرت ابو بکر کے غلام عامر بن فسیر و نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر فرمان امن لکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ اہل مدینہ ہر روز صبح سویرے شہر سے باہر آکر آپ مین الی یکم کا انتظار کرتے اور وقت دو پہر مایوس ہو کر لوٹ جاتے۔ ایک دن ایک یہودی نے قلعے سے دیکھا اور قرائن سے پہچان کر پکارا۔ ” اہل عرب ! تم جس کا انتظار کر رہے تھے وہ آگیا۔ ” تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا۔
ہجرت نبوی ﷺ
سوال 1: مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیے۔
الف۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا مراد ہے؟
جواب : رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بحکم خداوندی تبلیغ دین کی خاطر مکہ سے مدینہ جانا ہجرت نبوی
ب : رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے کون سے سال ہجرت فرمائی ہے۔؟
جواب : رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے تیرہویں سال ہجرت فرمائی۔
ج : حضرت امیرؑ سے کون سی شخصیت مراد ہے؟
جواب: حضرت امیر سے مراد حضرت علی ؑ ہیں۔
د: رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؑ سے فرمایا ” مجھے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے “۔
آج رات تم میرے بستر پر سو جانا اور کل صبح مانتیں واپس کر کے مدینہ آجانا۔
ہ:حضرت اسماؓ ء کون تھیں؟
جواب: حضرت اسماؓء حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی تھیں۔
و : قریش نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر تعالی عنہ کو گرفتار کرنے کا کیا انعام مقرر کیا؟
جواب : قریش نے آپؐ اور حضرت ابو بکرؓ کو گرفتار کرنے کا انعام سواونٹ مقرر کیا۔
س:سراقہ بن حجشم کیسے تائب ہوا؟
جواب : جب رسول پاکؐ کا پیچھا کرتے ہوئے سراقہ بن حجشم کا گھوڑا ز مین میں دھنس گیا تو وہ تائب ہوا۔
سوال :2 متن کو مد نظر رکھتے ہوئے موزوں الفاظ کی مدد سے خالی جگہ پر کریں۔
الف۔ حافظ عالم نے مسلمانوں کو دارالامان کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ (مکہ، مدینہ ، طائف،)
نبوت کا سال شروع ہو اور اکثر صحابہ (رضی اللہ ) مدینے پہنچ چکے تو وحی الہی کے مطابق
: آنحضرت ؐ نے بھی مدینے کا عزم فرمایا۔ ( بارھواں ، دسواں ، / تیر ھواں، پندرھواں )
(ج۔ اس وقت بھی آپ ؐ کے پاس بہت سی جمع تھیں۔ ( تلواریں، امانتیں، کھجوریں، نعمتیں
(د—کو معلوم ہو چکا تھا کہ قریش آپ ؐ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں۔ (جناب ابو بکرؓ، جناب عمرؓ، جناب امیرؑ، جناب عثمان)
ہ——–سے پہلے قرار داد ہو چکی تھی۔ ( حضرت عمرؓ، حضرت زیدؓ، حضرت علیؑ، حضرت ابو بکرؓ )
و۔ اسی طرح —- راتیں غار میں گزاریں۔ ( تین، چار، پانچ ، سات )
سوال 3: درج ذیل بیانات میں سے درست اور غلط کی نشاندہی کریں۔
الف۔ دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکار میں سنائی دے رہی تھیں۔
X ب۔ حافظ عالم نے مسلمانوں کو دارالامان حبشہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
ج۔ نبوت کے تیر ہویں سال اکثر صحابہ مدینہ پہنچ چکے تھے۔
د۔ سب لوگوں نے ایک ہی رائے پیش کی
ہ۔ اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے ۔
و۔ فاتح خیبر کے لیے مقتل گاہ فرش گل تھا۔
ز۔ حضرت ابو بکرؓ کا غلام رات گئے ، بکریاں چرا کر لاتا۔
ح۔ حضرت عائشہؓ گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھیں۔X
ط۔ صبح قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر آنحضرتؐ کی بجائے جناب امیرؑ تھے۔
ی۔ نبی کریم ؐ کی تشریف آوری کی خبر مدینے میں پہلے پہنچ چکی تھی۔
سوال 4 : کالم (الف) میں دیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب) کالم (ج)
دارالامان جھنکاریں مدینہ
دیانت فرش گل امانت
قتل گاہ چشم انتظار فرش گل
ہمہ تن امانت چشم انتظار
تلوار مدینہ جھنکاریں
سوال 5: سبق ہجرت نبوی کا خلاصہ تحریر کریں۔
سوال 6: درج ذیل الفاظ و تراکیب کا تلفظ اعراب کی مدد سے واضح کریں۔
مَحَاصَرَہ ، حَافظِ عَالِم، وَجُودِ اَقدَس، قَتَل گاَه، فَرشِ گُل، عَدَاوَت، بُوسَہ گاَه، دَارُ الامان، خَلَائِق، قَبَائِل،
سوال 7 : درج ذیل کے معنی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔
الفاظ معنی جملے
دعوت حق حق کی دعوت نبی پاک علی کریم نے دعوتِ حق کے دوران میں انتہائی مصائب
کا سامنا کیا۔
ہدف نشانہ کفار کے ظلم و ستم کا ہدف نبی پاک ملی یا اینم کی ذات تھی۔
معیوب عیب والا/برا قریش مکان کے زنانہ حصے میں داخل ہونا معیوب سمجھتے تھے-
ترکش تیر رکھنے کا تھیلا سراقہ نے ترکش سے فال کا تیر نکالا تو جواب میں ” نہیں ” آیا-
خون بہا خون کا بدلہ خون کا بدلہ کفار نے حضورﷺ کی گرفتاری / قتل پر ایک خون بہا کے برابر انعام مقرر کیا
سوال :8: جمع کے واحد اور واحد کی جمع لکھیں۔
واحد جمع
جھنکار جھنکاریں
ہدف اہداف
زنجیر زنجیریں
قبیلہ قبائل
رائے آرء
:کثیر الا متخابی سوالات
درست جوابات کی نشاندہی کریں:-
۔1 مولانا شیلی نعمانی قصبہ بندول ضلع اعظم گڑھ میں کب پیدا ہوئے؟
(الف۔ ۱۸۵۰ء (ب)۱۸۵۲ (ج) ۱۸۵۶ء (ر)۱۸۵2
– مولانا شبلی نعمانی نے ادارہ قائم کیا
الف۔ دار الكتب (ب) دار المصنفین (ج) دار السلام (د) دار الحدیث
شبلی نعمانی کی شہرت کی وجہ ہے۔
الف۔ نظم (ب) نثر (ج) غزل (د) کالم نگاری
۔ مولانا شبلی نعمانی کا سفر نامہ ہے۔
الف۔ سفر نامہ روم و شام (ب) سفر نامہ روم و مصر و شام (ج) سفر نامہ هند (د) سفر نامہ مصر
-مولانا شبلی نعمانی نے وفات پائی۔
الف۔ ۱۹۱۴ء (ب) ۱۹۱۵ (ج) 1914 (ر)۱۹۲۳ء
6
سبق ” ہجرت نبوی علیہ السلام” کے مصنف ہیں :
الف۔ مولانا محمد علی جوہر (ب) مولانا شبلی نعمانی (ج) سید سلیمان ندوی (د) مولانا شبیر احمد
-سبق ” ہجرت نبوی علیه السلام ماخوذ ہے:
(الف۔ سیرت ہشام (ب) الفاروق (ج) سیرت النبی ﷺ
۔ ہجرت کا حکم ہوا:
الف۔ خدا کی طرف سے (ب) مکہ والوں کی طرف سے (ج) قریش کی طرف سے (و) اہل عرب کی طرف سے۔
۔ جب ہجرت کا حکم ہوا تو اعلان نبوت کو گزر چکے تھے:
الف۔ دس سال (ب) 11 سال (ج) 12 سال (د) 13 سال
– شبلی نعمانی کے والد کا نام تھا:
الف۔ شیخ مطیع اللہ (ب) شیخ حبیب اللہ (ج) شیخ رفیع اللہ
– رسول کریم ﷺ کے قتل کا مشورہ دیا: (الف) ابو جہل نے –
(رسول کریم ﷺ کے خلاف سازش میں ہر قبیلے سے افراد منتخب کیے گئے۔(ایک
(الف۔ اہل عرب معیوب سمجھتے تھے :
چوری کرنا (ب) شراب نوشی (ج) امانت میں خیانت کرنا (د) زنانہ مکان میں داخل ہونا
عرب والے آپ ﷺ کے پاس رکھواتے تھے:
الف۔ درہم (ب) دینار (ج) امانتیں (د) مال وزر
-آپ ﷺنے بتایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے:
الف۔ حضرت ابو بکرؓ (ب) حضرت علیؑ کو (ج) حضرت عمرؓ کو (د) حضرت عثمانؓ کو
۔ ہجرت کی شب رسول کریم ﷺ کا بستر تھا:
خطر ناک جگہ (ب) قتل گاہ کی زمین (ج) کانٹوں کی سیج()
-حضور اکرم ﷺ نے امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سونپی۔
الف۔ حضرت ابو بکرؓ (ب) حضرت علیؑ کو (ج) حضرت عمرؓ کو (د) حضرت عثمانؓ کو
-فاتح خیبر کے لیے قتل گاہ تھا: (پھولوں کی سیج)
-کفار کو بے خبر کر دیا:
الف۔ دشمنوں نے (ب) قبائل نے (ج) قریش نے(د) قدرت نے
– رسول کریمﷺنے فرمایا مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے:
الف۔ مکہ (ب) مدینہ (ج) عرب (د) شام
دوران ہجرت ساتھ جانے کی قرار داد ہوئی۔
الف۔ حضرت ابو بکرؓ سے (ب) حضرت عمر ؓسے ( ج ) حضرت عثمان ؓ سے (1) حضرت علی ؓ سے
۔ حضور ﷺاور حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ ) مکہ سے روانہ ہو کر سب سے پہلے پوشیدہ ہوئے:
الف۔ غار حرا میں (ب) وادی طوبی میں (ج) وادی نینوا میں (د) جبل ثور کے غار میں
– آپ ﷺ تک قریش کی خبریں پہنچاتے:
(الف) حضرت علی ؓ (ب) حضرت عثمان ؓ (ج) حضرت ابو بکر ؓ کے بیٹے عبد اللہ (و) حضرت عمر ؓ
۔۔ حضرت ابو بکر (رضی اللہ) کا غلام فراہم کرتا:
الف۔ دودھ (ب) غذا (ج) کھجوریں(د) گوشت
– ابن ھشام کے مطابق آپ کو کھانا پہنچا کر آتیں:
(الف۔ حضرت اسماءرضی اللہ (ب) حضرت خدیجہ رضی الله (ج) حضرت فاطمہ رضی اللہ (د) حضرت عائشہ رضی اللہ
– آپ ﷺ نے غار میں راتیں گزاریں:
الف۔ پانچ ( ب) دو (ج) تین (د) چار
– مکہ والوں نے حضور ﷺ کو نہ پا کر حضرت علی (رضی اللہ) کو محبوس رکھا:
الف۔ مکہ میں (ب) مدینہ میں (ج) طائف میں (د) حرم میں
۔ حضرت ابو بکر ؓ غمزدہ ہوئے:
الف۔ مکہ چھوڑنے پر (ب) ہجرت کرنے پر (ج) دشمن کے غار تک پہنچ جانے پر (د) گھر چھوڑنے پر
– رسول کریم ﷺ اور ابو بکر (رضی اللہ) کی گرفتاری پر انعام مقرر کیا گیا:
الف۔ دس اونٹ (ب) پچاس اونٹ (ج) سو اونٹ (د) دوسو اونٹ
– غار سے نکلنے کے بعد آپ ﷺ کا پیچھا کیا:
الف۔ ابو جہل نے (ب) سراقہ بن حجشم نے (ج) عمر بن ہشام نے (د) ابولہب نے
– سراقہ بن حجشم آپﷺ تک کیوں نہ پہنچ سکا؟
الف۔ لانچ کی وجہ سے (ب) گھوڑا آگے نہ بڑھا (ج) گھوڑا زمین میں دھنس گیا (د) اپنی موت کے خوف سے
– حضور ﷺ نے سراقہ بن حجشم سے سلوک کیا:
الف۔ معاف کر دیا (ب) قتل کر دیا -( ج ) امن کی تحریر لکھ دی (د) قید کر دیا
– سراقہ بن حجشم کے لیے فرمانِ امن لکھا:
الف حضرت ابو بکر ؓ نے (ب ) رسول کریم ﷺ نے (ج) حضرت عثمان ؓ نے (د) عامر بن فہیرہ نے
35- حضرت امیر سے کیا مراد ہیں:
(الف ۔ رسول کریم ﷺ (ب) حضرت علی ؓ (ج) حضرت ابو بکر ؓ (د) حضرت عثمان ؓ
Post Comment